افغانستان کی 20 سالہ جنگ اور طالبان؟

منگل 24 اگست 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

اس وقت پوری دُنیا کا میڈیا طالبان کی مدد کا الزام پاکستان پر لگا رہا ہے مگر جب ہم حقائق کی طرف دیکھتے ہیں تو ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ طالبان کی اس پیش قدمی اور پھر کابل تک پر قبضے کی طالبان کی تمام منصوبہ بندی سے امریکا مکمل طور پر آگاہ تھا۔ دراصل طالبان نے دیہی افغانستان میں پیش قدمی 2014 سے ہی شروع کردی تھی جب نیٹو افواج نے جنگی کردار سے کنارہ کشی اختیار کرکے چارج افغان فورسز کے حوالے کیا تھا، اس لیے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ امریکیوں کو طالبان کے ارادوں اور افغانستان کے مستقبل کے نقشے کی خبر نہیں تھی تو یہ اس کی کم علمی ہے۔

طالبان نے دیہی اور دُور دراز علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد انہیں اگلے آپریشنز کے لیے اڈوں کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔

(جاری ہے)

انہی دُور دراز کے اضلاع میں طالبان نے نئی بھرتی بھی کی، ان کی تربیت بھی کی اور درست وقت کا انتظار کیا، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ہر طرح کے وسائل سے لیس امریکی اس سے بے خبر ہوں۔ اس کے علاوہ 2018 میں جب سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے اور 29 فروری 2020 میں دوحہ امن معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں افغانستان سے غیر ملکی فوجی انخلا کی ڈیڈ لائن یکم مئی 2021 مقرر کی گئی۔


دوحہ مذاکرات اور معاہدے کو امریکا کی طرف سے امن کی کامیابی قرار دیا گیا لیکن دراصل ان مذاکرات کا واحد مقصد امریکا کو بیس سال کی اس لاحاصل جنگ سے باہر نکالنا تھا۔ ان مذاکرات کے دوران امریکا نے افغانستان میں اپنی سرپرستی میں بنائی گئی کابل حکومت کو بھی شامل نہ کیا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان مذاکرات کا مقصد اس لولی لنگڑی حکومت کو مکمل طور پر افغانستان کے مستقبل سے دُور رکھنا اور طالبان کو مضبوط بنانا تھا۔

یہی وجہ یہ کہ 15 اگست کو جب طالبان جنگجو کابل کا محاصرہ کر رہے تھے اسی دوران صدر اشرف غنی نے مزاحمت کرنے کی بجائے اچانک ملک چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی اور یہ بیان جاری کیا کہ اگر وہ راہِ فرار نا اختیار کرتے تو شاید بہت خون خرابہ ہوتا۔ اس وقت کسی کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ وہ کہاں گئے۔ بہت سے لوگ ان کے ازبکستان یا تاجکستان جانے کی قیاس آرائیاں کر رہے تھے۔

پھر آخرکار اشرف غنی نے خود متحدہ عرب امارات میں ہونے کی تصدیق کی۔
اب یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ 29 فروری کو ری پبلکن صدر ٹرمپ نے دوحہ معاہدہ کیا اور ڈیموکریٹ جو بائیڈن اس معاہدے کو “بُری ڈیل” بھی کہتے رہے اور پھر صدر بننے کے بعد اس پر عمل درآمد بھی کیا۔ دوحہ مذاکرات کے دوران ہی طالبان نے فوجی طاقت جمع کرنا شروع کردی تھی اور امریکیوں کی واپسی کے اعلان کا انتظار کرنے لگے۔

ٹرمپ سے ہونے والے معاہدے کے تحت یکم مئی فوجی انخلا کی ڈیڈ لائن تھی لیکن طالبان نے معاہدہ طے پاتے ہی محتاط انداز میں جنگی حکمتِ عملی پر عمل شروع کردیا تھا اور افغان فورسز پورا سال طالبان کو روکنے کی ناکام کوشش میں مصروف رہیں۔ افغان فورسز کو کبھی کبھی امریکی فضائی مدد ملتی تو طالبان کی پیش قدمی جانی نقصان کے باعث سست ضرور ہوجاتی تھی لیکن امریکی کارروائی رکتے ہی طالبان کی پیش قدمی دوبارہ شروع ہوجاتی تھی۔

طالبان کو جس قدر وقت اور مہلت درکار تھی امریکی معاہدے نے انہیں مہیا کردی تھی۔ طالبان کی افغانستان میں پیش قدمی یکم مئی تک تیز تر ہوچکی تھی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ منصوبہ بندی پر عمل درآمد شروع ہوچکا تھا۔
اب افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد طالبان ملک پر مکمل قبضہ حاصل کر چکے ہیں جس کے بعد اتحادی ممالک امریکا کے خلاف ہوگئے ہیں اور انخلاء کے فیصلے پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

امریکا کے بڑے اتحادی ممالک برطانیہ اور جرمنی نے افغانستان سے فوج کے انخلاء کے فیصلے کی کھل کر مذمت کی ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا کہ موجودہ صورتحال افغانستان کے ساتھ ساتھ جرمنی کیلئے بھی ڈرامائی اور خوفناک ہے۔ برطانوی وزیرِ دفاع نے امریکی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کابل پر طالبان کا قبضہ عالمی برادری کی ناکامی ہے۔ امریکا اور طالبان کا جس طرح معاہدہ ہوا، وہ غلطی تھی۔

افغانستان کو دوبارہ دہشت گردوں کی آماجگاہ نہیں بننا چاہئے۔ دوسری طرف شکست خوردہ امریکی حکومت تاحال فوج کے افغانستان سے انخلاء کے فیصلے کو درست قرار دے رہی ہے۔ محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکا کے ساتھ نئی افغان حکومت کے ساتھ تعلقات کا انحصار طالبان کے اقدامات پر ہوگا۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان کا یہ کہنا کہ ہم ایسی افغان حکومت کے ساتھ کام کیلئے تیار ہیں جس میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا احترام کیا جائے اس بات کا ثبوت ہے کہ معاملات پہلے ہی طے پا چکے تھے۔

اس سے پہلے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ہم سابق افغان صدر اشرف غنی سے طالبان سے مذاکرات کا کہہ چکے تھے۔
ان سب حقائق سے آگاہی حاصل ہونے کے بعد یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امریکا طالبان سے تمام معاملات پہلے ہی طے کر چکا تھا۔اب عالمی میڈیا کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈال کے کہ پاکستان طالبان کی مدد کر رہا ہے خود اس الزام سے بری الذمہ ہونا چاہتا ہے جو کہ میرے خیال میں انتہائی احمقانہ سوچ ہے۔

صدر بائیڈن نے خود افغان جنگ کو ناقابلِ فتح قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا مقصد اسامہ بن لادن کو سزا اور دہشتگردی کو امریکا کے لیے خطرہ بننے سے روکنا تھا اور یہ دونوں مقاصد حاصل ہوچکے ہیں۔ جو میرے خیال میں امریکا کی طرف سے شکست کا کھلا اعتراف تھا۔
ساری دُنیا یہ بات جانتی ہے کہ بیس سالہ اس جنگ میں امریکا کو شکست ہوئی ہے اور اُسے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے اور اس ناکامی کے بعد امریکہ کا افغانستان سے انخلا ذمہ دارانہ نہیں بلکہ امریکا نے ایک بار پھر نوے کی دہائی جیسی غلطی ہے جس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہونے کا خدشہ ہے اور پاکستان ماضی کی طرح ایک بار پھر اس سے صورتِ حال سے دو چار ہو سکتا ہے جو پاکستان کے مسائل میں مزید اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔

بھارت کی طرف سے افغانستان کی سرزمین کو ماضی میں پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے مگر طالبان نے فتح کے بعد اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ اب افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ یہ بہرطور ایک مثبت اور خوش آئند بات ہے۔ بہر کیف اب پاکستان کو افغانستان میں پیدا ہونے والی نئی صورتحال کا جائزہ لینا پڑے گا کہ نہ صرف اس صورتحال کے منفی اثرات سے خود کو محفوظ بنایا جاسکے بلکہ ماضی کی طرح افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :