
ڈاکٹر عبدالقدیر کا احسان، ناقابل تسخیرپاکستان!
پیر 11 اکتوبر 2021

جنید نوازچوہدری (سویڈن)
ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب مرحوم کے بارے میں بڑے بڑے کالم نگار بہت سے کالم لکھ چکے ہیں اور اُن کی ملک کے لیئے خدمات کو دُنیا کے سامنے لا چکے ہیں۔ مجھ ناچیز کا اُن کالم نگاروں جیسا مقام تو نہیں ہے اور نا ہی اُن کے پاکستانی قوم پر رہتی دُنیا تک کیئے گئے احسان کو لفظوں کی صورت میں بیان کرنا اتنا آسان ہے مگر پھر بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم جیسےمحبِ وطن اور عزم و استقامت کے مینار کے بارے میں لکھنے کو میں اپنے لیئے ایک اعزاز سمجھتا ہوں۔
(جاری ہے)
پاکستان کے جوہری پروگرام کے خالق اور پاکستان کے حقیقی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان ولد عبدالغفور خان ، یکم اپریل 1936 میں بھوپال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بھوپال میں حاصل کی اور اسکے بعد 1951 میں اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان ہجرت کر آئے۔ کراچی یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی اور بعد ازآں اعلی تعلیم برلن ، ہالینڈ اور بلجیم کی یونیورسٹیوں سے حاصل کی۔
اُن کے دل میں پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے کا خیال کیسے آیا اس کا ذکر میں اپنے ایک کالم میں پہلے ہی تفصیل سےکر چکا ہوں، مختصراً یہ کہ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت وہ بیلجیئم میں مقیم تھے اور مشرقی پاکستان کی فوجی کمانڈ کے سربراہ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کو مشرقی بھارتی فوجی کمانڈ کے سربراہ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے پاکستانی 93 ہزار فوجیوں کے ساتھ سرنڈر کرنے کے معاہدے پر دستخط کرتے دیکھ کر ہر محب وطن پاکستانی کی طرح انتہائی رنجیدہ ہوئے اور ٹھان لی کے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا کر چھوڑیں گے اور جیسا سوچا ویسا کر بھی دکھایا۔ بقول علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ
دریاوں کے دل جس سے دھل جائیں وہ طوفان
ڈاکٹر صاحب نے نا صرف پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنایا بلکہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں جب امریکہ نے ایٹمی پھیلاؤ کے حوالے سے پاکستان پر مزید دبائو ڈالا تو ڈاکٹر قدیر خان صاحب نے پاکستان کی خاطر ایک مرتبہ پھر ناقابلِ فراموش قربانی دی۔ انہوں نے 4 فروری 2004 کو امریکا کو مطمئن کرنے کے لیئے میڈیا کے سامنے معافی نامہ پڑھا کہ انہوں نے دوسرے ملکوں کو یہ ٹیکنالوجی دینے کی غلطی کی ہے اور یہ کہ یہ انکا اپنا ذاتی عمل ہے اس میں حکومت پاکستان بالکل شامل نہیں۔ یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ وہ معافی نامہ جو اُنہوں نے پڑھا اُس کےمصنف وہ خود نہیں بلکہ حکومت کا ہی کوئی کارندہ تھا۔ مگر آفرین ہے عزم و استقلال کے اُس پیکر پہ کہ انہوں نے یہ صرف اور صرف وطن کی محبت میں اور ملک پاکستان کو بے جا پابندیوں سے بچانے کے لئے کیا اور اپنی عزت اوروقار کو داؤ پر لگا کر پاکستان کو پابندیوں سے بچالیا اور پھر کئی سال تک نظر بند رہنا پڑا۔ بقول افتخار عارف
وہ قرض بھی اتارے جو واجب بھی نہ تھے
اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب مرحوم نے مملکتِ پاکستان کے لئیے کیسی کیسی قربانیاں دیں اور حکومت نے بدلے میں اُنہیں یہ دیا کہ صدرِ پاکستان اور وزیرِ اعظم صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے انتقال پر گہرے “دُکھ اور رنج” کا اظہار تو کیا مگر پاکستان کی سلامتی کی علامت سمجھے جانے والے کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے کی تکلیف گوارہ نہیں کی۔ ایسا کر کے مملکتِ پاکستان کے سربراہان نے آج کی نوجوان نسل اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئیے کیا پیغام چھوڑا ہے؟
تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں اپنے محسنوں کو وہ مقام نہیں دیتیں جس کہ وہ حقدار ہیں تو وہ قومیں ذلیل اور رُسوا ہوتی ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ ہماری آج کی نوجوان نسل اور آنے والی نسلوں کو اس قوم کے محسنوں کے کرداروں سے مکمل آگاہی ہونی چاہئیے تاکہ وہ اُن کے لئیے مشعلِ راہ بن سکیں اور آج کی نوجوان نسل اور ہماری آنے والی نسلوں کو یہ آگاہی حاصل ہو کہ جو ہماری قوم کے حقیقی محسن ہیں اُن کے خلاف کیسے کچھ قوتیں عالمی ذرائع ابلاغ کے اداروں کے ذریعے جھوٹی اور بے بنیاد خبریں اور من گھڑت قصے پھیلا کر اُن محب وطن کرداروں کو کیسے متنازعہ بنانے اور نشانِ عبرت بنانے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ اس قوم میں پھر کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب مرحوم جیسا محب وطن سایئنسدان دوبارہ نا پیدا ہو سکے۔ وہی قوتیں دوسری طرف کیسے اسٹیفن ہاکنز جیسے ملحد کو ہیرو بنا کر پیش کرتی ہیں۔ لہذا حکومت کو چاہئیے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی زندگی اور محبِ وطنی کے بارے آج کی نوجوان نسل کو مکمل آگاہی دینے کے اقدامات کرے اور اُن کے نام سے باقاعدہ ایک میوزیم بنایا جائے جہاں اُن کی زندگی اور پاکستان کے لئیے اُن کی خدمات سے متعلق جامع معلومات موجود ہوں اور پاکستان کے تعلیمی اداروں کے طلباء کے لئیے اس میوزیم کے مطالعاتی دوروں کا باقاعدہ اہتمام کیا جائے جس سے آنے والی نسلوں کو بھی قوم کے اس محسن کی زندگی کے بارے میں آگاہی حاصل ہو اور اُن میں بھی وطن سے محب کا جذبہ پیدا ہوسکے۔ یاد رہے کہ زندہ قومیں کبھی اپنے محسنوں کو نہیں بھولتیں، اب ہمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی قربانیوں کے جواب میں اپنے زندہ قوم ہونے کا ثبوت دینا ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم یہ ثبوت دے پائیں گے؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
جنید نوازچوہدری (سویڈن) کے کالمز
-
تحریک عدم اعتماد،کھیل شروع!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
کنٹینر پہ کھڑا وزیرِاعظم!
جمعرات 27 جنوری 2022
-
غریب عوام کا برانڈ ،وزیراعظم یا کوئی اور!
منگل 4 جنوری 2022
-
سقوطِ ڈھاکہ، زمینی حقائق کیا تھے؟
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
مہنگائی کا طوفان، حقیقت کیا ہے؟
جمعہ 3 دسمبر 2021
-
ڈاکٹر عبدالقدیر کا احسان، ناقابل تسخیرپاکستان!
پیر 11 اکتوبر 2021
-
کیا بحیثیتِ قوم ہم گدا گر ہیں؟
بدھ 15 ستمبر 2021
-
افغانستان کی 20 سالہ جنگ اور طالبان؟
منگل 24 اگست 2021
جنید نوازچوہدری (سویڈن) کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.