غریب عوام کا برانڈ ،وزیراعظم یا کوئی اور!

منگل 4 جنوری 2022

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

OK
 
 
 
 
Mian Muhammad Nadeem
اس غریب مار مہنگائی کے دور میں اور آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسے پاکستان میں حکومت ایسی چین کی بانسری بجا رہی ہے کہ جس کی مثال پاکستان کی تاریخ کے کسی بد ترین آمریت کے دور حکومت میں بھی نہیں ملتی۔ اس بے حیائی اور ڈھٹائی سے وزرا حکومتی اقداموں کا اور عمران خان کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں اور اسکی خوشامد میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ آسمان سے اترئی ہوئی ایسی ماورائی مخلوق ہے جو کبھی کوئی غلطی کر ہی نہیں سکتا اور جو کوئی شخص ایسا سوچ بھی رہا ہے کہ عمران خان کوئی غلطی کر رہا ہے تو وہ شخص گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔

ایک چیز جو سب سے زیادہ پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد نظر آئی وہ یہ کہ پارٹی رہنماوں اور وزرا کی جانب سے کارکردگی نظر آئے نہ آئے، لیکن لطائف اور ہتک آمیز بیانات کی مسلسل برسات ضرور دیکھنے میں آئی ہے۔

(جاری ہے)

حکومت میں آنے سے پہلے اور آنے کے بعد بھی دوسروں کا تمسخر اُڑانے کی روایت نے ابھی تک دم نہیں توڑا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ کہ جب آپ خود کچھ نا کر پائیں تو آپ اپنے الفاظ دوسروں کے منہ میں ڈالنے کی بھونڈی کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔

تین سال سے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ان بیانات کے حوالے سے سوشل میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا پر بحث نہ ہو رہی ہو۔ مگر آفرین ہے وزرا کی ڈھٹائی اور بے حیائی پہ کہ وہ ہر آنے والے دن کہ ساتھ مزید اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اول دن سے جس چیز کا فقدان اس حکومت میں نظر آیا وہ ہے سنجیدگی کا فقدان۔ کل کابینہ کے اجلاس کے ساتھ اپنے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ “اپوزیشن کو کسی صورت اثر انداز نہ ہونے دیں، عوام کو حقائق بتائیں اور عوام کو آئندہ ماہ مہنگائی کی کمی کے حوالے سے بھی بتائیں۔

عمران خان نے کہا کہ ہماری معاشی ٹیم کی کارکردگی تسلی بخش ہے، آپ کا برانڈ وزیراعظم ہے جو چور ڈاکو نہیں”۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان سے کوئی یہ پوچھے کہ آپ کے دورِ حکومت میں کبھی چینی اسکینڈل سامنے آیا توکبھی آٹا اسکینڈل، کبھی ادویات کا اسکینڈل تو کبھی رنگ روڈ اسکینڈل، کبھی فارن فنڈنگ اسکینڈل تو کبھی توشہ خانہ اسکینڈل، کبھی ذریعہ آمدنی کے سوالات تو کبھی بنی گالہ کے گھر کی خرید کے سوالات تو کبھی اس کا خرچہ اُٹھانے والوں کے کردار پہ سوالات اُٹھے مگر قوم کو ان کے جوابات اب تک نہیں مل سکے۔

تو آپ اپنے آپ کو کیسے “برانڈ” کے طور پر اور کس اخلاقی جواز کے تحت پیش کر رہے ہیں؟ جبکہ آپکا کردار مکمل طور پر متنازعہ ہو چکا ہے۔ بلکہ آپ کی حکومت کی پالیسیاں اور وزرا کی کارکردگی دیکھ کر کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم دُنیا کے لئیے ایک لاوارث، بے بس اور لاچار قوم بن چکی ہے جس کا جتنا بھی تماشا بنا لیا جائے اور جتنا بھی تمسخر اُڑا لیا جائے تو جواب میں وہ سوائے لا چارگی اور بے بسی کے ساتھ کفِ افسوس ملنے کے اور کچھ نہیں کر سکتی ۔


ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ کہ اس قوم کو ایٹمی قوت حاصل کرنے کی وہ سزا دی جارہی ہے کہ اس قوم کی نسلیں تک یاد رکھیں کہ طاقت صرف اور صرف اُن سامراجی استعماری قوتوں کا حق ہے جن کے قویٰ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد کمزور ہونے لگے اور نوآبادیاتی مقبوضات پر ان کی گرفت قائم رہنے کے امکانات کم ہوگئے تو ان کے زیرِ اثر غلام ملکوں کے رہنے والے عوام کی اس دیرینہ خواہش کی تکمیل کے آثار پیدا ہوگئے کہ وہ آزاد قوم کی حیثیت سے آزاد فضا میں سانس لے سکیں اور استعماری قوتوں کے مقبوضہ ممالک یکے بعد دیگرے آزاد ہونے لگے تو ان سامراجی طاقتوں نے نوآبادیاتی مقبوضات پر تسلط سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کی بجائے ایسی حکمتِ عملی اختیار کی کہ یہ ممالک اور اقوام بظاہر تو آزاد ہو جائیں مگر پسِ پردہ ان کی اقتصادی، سیاسی اور فوجی پالیسیوں پر سامراجی آقاؤں کی چھاپ اور کنٹرول بدستور قائم رہے۔

چنانچہ آزاد ہونے والے بیشتر ممالک ظاہری غلامی سے نجات حاصل کرنے کے باوجود اپنی پالیسیوں کے لحاظ سے اب تک غلامی کا شمار ہیں فرق صرف یہ ہے کہ یہ “ریموٹ کنٹرول غلامی”ہےاور آج تیسری دنیا اور عالمِ اسلام کے بیشتر ممالک کا حال یہ ہے کہ آزاد اور خودمختار ریاستیں کہلانے کے باوجود وہ دفاعی خودمختاری اور خودکفالت کے تصور تک سے نا آشنا ہیں اور کسی نہ کسی عالمی استعماری قوت کے زیرِ اثر رہنے پر مجبور ہیں۔

اقتصادی امداد کے پُرکشش عنوان کے تحت ان کی معاشی پالیسیاں امداد دینے والی عالمی طاقتوں کے مفادات کے دائرہ میں محصور ہیں مزید یہ کہ جدید ٹیکنالوجی اور توانائی کے اعلیٰ ترین وسائل ان کے لیے شجرِ ممنوعہ ہیں۔ کم و بیش یہی حال پاکستان کا بھی ہے۔ ہر طرح کے قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود اس ملک پہ گاہے بگاہے ایسی نا اہل حکومتوں کو مسلط کیا جاتا ہے کہ جو اُن “سامراجی قوت برانڈ” کے مفادات کو تحفظ دیتی ہیں جن کو اس ملک کی جڑوں کو سوائے کھوکھلا کرنے کے اور اس ملک کو معاشی اور سیاسی طور اپنا غلام بنائے رکھنے کے اور کسی چیز سے کوئی غرض نہیں!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :