مہنگائی کا طوفان، حقیقت کیا ہے؟

جمعہ 3 دسمبر 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

پاکستان میں اس وقت کمر توڑ مہنگائی نے غریب عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ مہنگائی تو ہر دور حکومت میں عوام کی کمر توڑتی چلی آرہی ہے البتہ پی ٹی آئی کی حکومت نے تو اگلی پچھلی تمام کسر پوری کر دی ہے۔ اس ریکارڈ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور ان کی قوت خرید ختم ہو تی جا رہی ہے۔ حکومت کا یہ فرض ہے ہوتا ہے کہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرے لیکن حقیقت تو یہ ہے حکومت کی عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کے نتیجے میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی حد سے تجاوز کر چکی ہے۔

اس وقت ملک میں بڑھتی ہوئی بے لگام مہنگائی اور بے روزگاری نے ہر دوسرے گھر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے ملک میں روزگار کا سلسلہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوان مجبوری اور بے بسی کے عالم میں بیرون ملک جانے کی غیر قانونی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی بھی پرواہ نہیں کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

انصاف کے نعرے لگانے والی پارٹی تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں ملک میں اس وقت بد دیانتی عروج پر ہے اور ہر محکمہ و ادارہ خطرناک حد تک کرپٹ ہو چکا ہے۔

جس میں مالی وقانونی کرپشن کے ساتھ ساتھ اخلاقی کرپشن بھی شامل ہو چکی ہے۔ جائز کام کے لئے جان بوجھ کر ایسے تاخیری حربے اپنائے جاتے ہیں اور “اوپر سے سختی” کے ایسے بہانے بنائے جاتے ہیں کہ جن سے عاجز آکر سائل رشوت دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ انسان ایک وقت کی روٹی تک کو ترس جائے گا۔

اس مہنگائی نے غریب کا جینا دوبھر کر دیا ہے اس مہنگائی سے بہت سی خطرناک برائیاں پیدا ہوئی ہیں جن میں اخلاقی برائیاں سرفہرست ہیں۔
اس مہنگائی کی ذمہ دار صرف حکومت وقت کی ناقص معاشی اور خارجہ پالیسیاں ہیں۔ بجائے اس کے کہ قریبی ممالک کے ساتھ سابق حکومتوں کے کئیے گئے تجارت کے فروغ کے معاہدوں کی تجدید کی جاتی اور اُن ممالک کے ساتھ مزید تجارتی معاہدے کئیے جاتے مگر اس کے بر عکس حکومت وقت اُن تمام ممالک کو ناراض کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے چنگل میں جا پھنسی اور اُن تمام معاہدوں کی معلومات جن میں کچھ معاہدے حساس نوعیت کے تھے کچھ ایسی طاقتوں کو دیں جن کی وجہ سے پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا ہمارا دوست مُلک چین شدید ناراض ہوا۔

نتیجتاً اس وقت پاکستان اور چین کی 70 سالوں پر محیط رفاقت شدید دباؤ کا شکار ہو چکی ہے جو اس سے پہلے کسی اور حکومت کے دور میں نہیں ہوئی۔ جس کے نتیجے میں اب سی پیک کے دوسرے مرحلے کے لئیے چینی سرمایہ کاروں کو پُرکشش پیشکشوں کے باوجود چینی سرمایہ کار کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھا رہے ہیں جو کہ معاشی مشکلات میں گھرے پاکستان کے لئیے کوئی خوش آئند بات نہیں ہے۔


دوسری طرف بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے قریباً دو ہفتے پہلے پاکستان کے ساتھ ہفتوں کی بات چیت کے بعد 6 بلین ڈالر کے اقتصادی بیل آؤٹ کو بحال کرنے کے لیے ایک ابتدائی معاہدہ کیا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف نے دراصل 2019 میں معاہدے پر دستخط کیے تھے، لیکن اس سال کے شروع سے اہم قسط کا اجراء روک دیا گیا تھا۔ کیونکہ آئی ایم ایف نے پاکستان کی جانب سے بیل آؤٹ پیکج کی “شرائط کی تعمیل میں تاخیر” پر تحفظات کا اظہار کیا۔


20 نومبر ، پیر کے روز آئی ایم ایف کی طرف سے دئیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ تازہ ترین تجویز کے تحت، آئی ایم ایف پاکستان کو تقریباً 1 بلین ڈالر فراہم کرے گا، جس سے 2019 سے اب تک 6 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ میں سے کل ادائیگی تقریباً 3 بلین ڈالر ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ماہ ہونے والی بات چیت میں "سابقہ اقدامات، خاص طور پر مالیاتی اور ادارہ جاتی اصلاحات کے نفاذ کے بعد، ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط" ایک معاہدہ ہوا۔

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی طرف سے اس طرح کی منظوری کو ایک رسمی منظوری سمجھا جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان بجٹ خسارے کو مزید کم کرے، بجلی اور پیٹرول کے نرخوں میں اضافہ کرے، ساتھ ہی منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کو روکے۔ حکومت نے حالیہ ہفتوں میں آئی ایم ایف کی بیشتر شرائط پر عمل کیا لیکن ایسا کرنے سے مہنگائی کا ایسا طوفان آیا ہے اور مزید آنے کا امکان ہے کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔


مگر میرے خیال میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے میں تاخیر کی وجہ پاکستان اور امریکا کے درمیان غیرمعمولی تناؤ کا شکار تعلقات تھے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اقتدار میں آنے کے بعد سے عمران خان کو فون کرنے سے گریزاں ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ آہستہ آہستہ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی چین کے ساتھ دوستی ہے۔

کیونکہ چین اس وقت ایک نئی عالمی طاقت کے طور پر ایک حقیقت بنتا جا رہا ہے جو کہ امریکہ اور اس کے اور بہت سے اتحادی ممالک کے لئیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ لہذا چین کو علاقائی طور پر تنہا کرنے کے لئیے چین کے سب سے زیادہ نزدیکی دوست کی حیثیت سے پاکستان کو معاشی گرداب اور آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا کر چین سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں امریکا اور اس کے اتحادی کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔


امریکہ، جو آئی ایم ایف پر بڑا اثر و رسوخ رکھتا ہے کی طرف سے جاری کئیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ “آئی ایم ایف کو ان دسیوں ارب ڈالر کے قرضوں کی مالی اعانت نہیں کرنی چاہیے جو پاکستان نے بیجنگ کے عالمی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے ایک حصے کے طور پر چین سے لیے ہیں” جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح معاشی بلیک میلنگ کے ذریعے پاکستان اور چین کے تعلقات کو خراب کرنے کی ایک عالمی سازش کی جارہی ہے جس سے پاکستان کو ترقی اور چین کو خطے میں ایک اسٹریٹیجک پارٹنر سے محروم کیا جا رہا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت اب بھی ہوش کے ناخن لیتی ہے کہ نہیں؟ اس وقت پاکستان کو قریبی ممالک بالخصوص چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پہ لانا پڑے گا اور اپنی خارجہ اور معاشی پالیسی پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی ورنہ کشکول لئیے ملک ملک گھومنا اس حکومت کا مقدر ہوگا اور غربت کی چکی میں پستے رہنا عوام کا مقدر!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :