کنٹینر پہ کھڑا وزیرِاعظم!

جمعرات 27 جنوری 2022

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

اس وقت مُلک میں سیاسی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور عمران خان اس صورتِ حال میں خود کو شدید بے بس محسوس کر رہے ہیں کیونکہ جن پسِ پردہ قوتوں کو وہ ڈھیر ساری یقین دہانیاں کروا کر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوئے تھے کہ وہ سب سنبھال لیں گے اب وہ قوتیں عملی طور پر عمران خان اور اُن کی کابینہ کی انتہائی مایوس کُن کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اُن سے مکمل طور پر مایوس ہو چکی ہیں اور وہ پسِ پردہ قوتیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کی زد میں ہیں اور اب وہ کسی طور پر بھی عمران خان کو مزید سپورٹ کرنے کو تیار نہیں ہیں اور کسی دوسری آپشن پر غور کر رہی ہیں۔

اس ساری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے عمران خان شدید جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آرہے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی جنھجھلاہٹ کا اظہار مختلف بیانات کے ذریعے کرتے ہیں، جس کے بعد ملکی میڈیا اور سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں آجاتے ہیں۔

(جاری ہے)


اس وقت ملک میں اتوار کے روز وزیراعظم عمران خان کا پبلک کالز پر طرزِ تخاطب اور ان کی تقریر مختلف حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔

عمران خان کا یہ کہنا تھا “ میں پھر سے کہتا ہوں کہ جسے اللہ نے سب کچھ دیا ہے اس کو کیا ضرورت پڑی کہ اپنی ساری زندگی لگائے اور اپنا گھر بار سارا کچھ لگا کہ ایک گھٹیا لوگوں سے ہر روز بُری بھلی گالیاں سُنے لیکن میں اس کو جہاد سمجھتا ہوں” اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی عمران خان سے پوچھے کہ سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ کو کس نے کہا تھا کہ کہ آپ سب کچھ چھوڑ کر اپنی عیش اور عشرت بھری زندگی چھوڑ کر شیروانی پہننے کے شوق میں پوری قوم کی قسمت داؤ پر لگائیں؟ دوسری بات آپکے الفاظ “ گھٹیا لوگوں سے ہر روز گالیاں کھانا” سے مراد کون لوگ ہیں؟ اپوزیشن، عوام یا اسٹیبلشمنٹ؟ کیونکہ ان تینوں صورتوں میں سب کے سب پاکستانی ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ آپ نے تمام پاکستانیوں کو گھٹیا کہا ہے جس سے آپ کی سیاسی بصیرت اور آپکی خاندانی تربیت اور آپکی آکسفورڈ یونیورسٹی کی پڑھائی کا بہت خوب اندازہ ہوتا ہے۔

تیسری بات کہ جب بقول آپکے کہ آپ گالیاں کھا کہ بھی “ جہاد” کر رہے ہیں تو اتنا چیخنے اور چلانے کی کیا ضرورت ہے؟ شاید آپ کی یادداشت کچھ کمزور ہے اگر نہیں تو آپ کو یہ ضرور یاد ہونا چاہیئے کہ کس طرح آپ کنٹینر پر چڑھ کر حکومت کو اور تمام سیاستدانوں کو کیسے کیسے القابات سے نوازتے تھے اور گالیاں نکالتے تھے، بھول گئے کیا؟ خان صاحب اسی کو مکافاتِ عمل کہتے ہیں آپ ہی ماض میں نئے پاکستان کے سہانے خواب دکھا دکھا کے اس قوم کے جذبات کو جگانے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور اپنے آپ کو متبادل کے طور پہ پیش کرتے رہے ہیں، آپ ہی نے عوام کی آنکھوں میں امیدوں اور امنگوں کے ایسے چراغ روشن کئے تھے کہ عوام کو آپ کی صورت میں ایک مسیحا نظر آنا شروع ہو گیا۔

وہ مسیحا جو اقتدار میں آنے کے بعد ان کے دکھوں کا مداوا کر سکتا تھا، وہ مسیحا جس نے احتساب کرنا تھا، وہ مسیحا جس نے بھیک کا کشکول توڑنا تھا، وہ مسیحا جس نے مسئلہ کشمیر پہ اقوامِ عالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بات کرنا تھی، وہ مسیحا جس نے بجلی دوسرے ملکوں کو بیچنی تھی، وہ مسیحا جس نے پٹرول کو 40 روپے لیٹر پر لے کے آنا تھا، وہ مسیحا جس نے اشیا خوردونوش کو اس سطح پر لانا تھا کہ ہر غریب کے گھر میں چولہا جلنا تھا، وہ مسیحا کہ جس نے ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنی تھیں، وہ مسیحا جس نے غریبوں کے لئے 50 لاکھ گھر بنانے تھے، وہ مسیحا جس نے کسی چور، ڈاکو اور لٹیرے کو معاف نہیں کرنا تھا، وہ مسیحا جس نے کسی قاتل پارٹی کو نہیں چھوڑنا تھا، وہ مسیحا جس نے ملک میں انصاف کا نظام قائم کرنا تھا، وہ مسیحا جس نے الیکٹ ایبلز کی سیاست نہیں کرنی تھی، وہ مسیحا جس نے کوئی کرپشن نہیں ہونے دینی تھی اور ملک میں دودھ کی نہریں بہانی تھیں۔

مگر آپ نے ان سب کا الٹ کیا ہے اور عوام کو امید کی سیڑھی پر چڑھا کہ جس بری طرح دھکا دیا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ 24 کروڑ کی 24 کروڑ عوام دھڑام سے زمین پر آ گری ہے۔ کشکول توڑنے کی بجائے آپ نے پورا ملک ہی آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے، آپ کے ساتھیوں پہ کرپشن کہ الزام ہیں، کشمیر بھارت کا حصہ بن چکا ہے، پیٹرول 150 روپے لیٹر تک پہنچ چکا ہے، غریب بھوکا مر رہا ہے، مہنگائی کے طوفان نے بات عصمت فروشی پہ پہنچا دی ہے، بے روزگاری نے نوجوانوں کو جرائم کی راہ اپنانے پر مجبور کر دیا ہے، چور ڈاکو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں، احتساب کے نام پہ ذاتی انتقام لیا جا رہا ہے، کل کے قاتل آج کے اتحادی ہیں، لوگ بے گھر ہو رہے ہیں، الیکٹ ایبلز کی شوگر اور آٹا ملز عوام کی جیبوں پر اربوں روپ کے ڈاکے مار رہی ہیں، ملک میں انصاف پہلے سے مہنگا بکنا شروع ہو چکا ہے تو خان صاحب اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ عوام آپ گالیاں جو دے رہی ہے تو اس کی وجہ آپ ہی کے دکھائے وہ خواب ہیں جو تار تار ہو چکے ہیں اور عوام یہ جان چکے ہیں کہ تبدیلی کا چورن آپ کے شیروانی پہننے کے شوق کے لئے اُن کو بیچا گیا، اب تو وقت قریب ہے کہ عوام کہیں جوتیوں کے ساتھ آپ کا استقبال ہی نا کرنا شروع کر دیں۔


 
اب آتے ہیں عمران خان کے بیان کے اس اہم حصے کی طرف کہ جس نے بہت سے سوال کھڑے کر دئیے ہیں اور وہ بیان یہ ہے کہ “میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں، اگر میں گورنمنٹ سے باہر نکل گیا تو میں آپ کے لئیے اور زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا۔ ابھی تک تو میں یہاں چپ کر کے آفس میں بیٹھا ہوتا ہوں اور تماشے دیکھ رہا ہوتا ہوں” اب یہاں سوال یہ ہے کہ عمران خان صاحب آپ کس کو خبردار کر رہے تھے؟ اپوزیشن تو آج تک آپکا کچھ نہیں بگاڑ سکی اس لئے اپوزیشن کو تو نہیں خبردار کر رہے تھے آپ، نا ہی عوام نے آپ کا کچھ بگاڑا ہے بلکہ اُلٹا آپ نے ہی عوام کی اُمیدوں پہ پانی پھیرا ہے۔

ان دونوں کے بعد اب باقی رہ جاتی ہے وہ پسِ پردہ قوت کہ جس کی وجہ سے آپ اقتدار میں آئے تھے تو خان صاحب آپ کا یہ غصہ سمجھ میں آ رہا ہے اس کی وجہ خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات کا وہ نتیجہ ہے جو آپ کی مرضی کے مطابق نہیں آ یا، اور وہ اس لئیے نہیں آیا کہ آپ کو لانے والے اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ وہ اس وقت ملکی اور بینالاقوامی سطح پر اپنے اس فیصلے کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہیں۔

چین کے ساتھ 72 سالہ رفاقت داؤ پہ ہے، آپ کی پالیسیوں کی وجہ سے کئی سو بلین ڈالر کے پراجیکٹ خطرے میں ہیں۔ کوئی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہے۔ عوام مہنگائی اور بھوک سے بلبلا رہی ہے تو ایسے میں آپ کے خیال میں اُن قوتوں کے پاس کیا راستہ بچا ہے؟ اگر آپ دوسروں کو احتساب کے نام پہ انتقام کا نشانہ بنانے کی بجائے کارکردگی دکھاتے، اور پچھلے دور حکومت میں سڑکوں پر احتجاج کرنے کی بجائے اسمبلیوں میں اپنی حاضری یقینی بناتے اور کچھ سیکھ کے حکومت میں آتے اور عوام کی امنگوں پر پورا اترتے تو معاملات اس نہج پر نا پہنچتے۔

مگر آپ نے حکومت سے باہر رہ کر بھی سڑکوں پر جنگ کا طبل بجایا اور آج حکومت میں رہ کر بھی جنگ کا طبل بجا رہے ہیں۔ آپ کے بیان اور تقریریں دیکھ کر ہر شعور رکھنے والے پاکستانی کو آپ آج بھی کنٹینر پر کھڑے عمران خان دکھائی دیتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی وزیراعظم اب کنٹینر پر کھڑا ہے۔ اس وقت عوام صرف ایک ہی دُعا اور امید کر رہی ہے اور وہ یہ کہ اب آپ بحیثیتِ وزیرِاعظم کنٹینر پر کھڑے ہو کے اُن پسِ پردہ قوتوں کے لئیے ایک ایسا ٹیسٹ کیس بن جائیں کہ پھر اس کے بعد پاکستانی قوم کو کچھ عرصے تک ایسے کسی اور تجربے سے نا گزرنا پڑے اور عوام کے ووٹ پر ڈاکا پڑنا بند ہو پوری پاکستانی قوم کی طرح وہ قوتیں بھی آپ کے جانے کی دعائیں مانگیں اور وہ قوتیں بھی عوام کی طرح دونوں کانوں کو ہاتھ لگائیں اور دوبارہ ایسی کوئی کوشش نہ ہی کریں۔

اس بات کی بس امید ہی کی جا سکتی ہے اور امید پہ دُنیا قائم ہے!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :