ارطغرل غازی نے کئی نقاب سرکا دیئے ہیں !

ہفتہ 16 مئی 2020

Kausar Abbas

کوثر عباس

آپ نے شتر مرغ کا نام ہی نہیں سنا ہو گا بلکہ یقینا اسے دیکھا ہوا بھی ہوگا۔جتنا یہ خود عجیب ہے اتنا ہی اس کا نام بھی عجیب ہے۔شتر مرغ فارسی زبان کا لفظ ہے جو دوالفاظ ”شتر “اور” مرغ“ کا مجموعہ ہے۔شتر کا معنی اونٹ جبکہ مرغ کا معنی ہے پرندہ۔ اس لحاظ سے شتر مرغ کا مطلب ہوا اونٹ نما پرندہ یا پرندہ نما اونٹ ۔ کسی نے اس سے پوچھا :تم شتر ہو یامرغ؟ اس نے جواب دیا : میں شتر(اونٹ) ہوں۔

پوچھنے والے نے پوچھا : شتر ہوتوبوجھ کیوں نہیں اٹھاتے؟اس نے جواب دیا : نہیں ! میں مرغ(پرندہ) ہوں۔ پوچھنے والے پھر سوال داغا:اگر مرغ ہوتو اڑ تے کیوں نہیں؟ اس نے دیدے گھماتے ہوئے جواب دیا: کیونکہ میں شتر ہوں۔یعنی جب بوجھ اٹھانے کا وقت آئے تو یہ مرغ بن جاتا ہے اور جب اڑنے کا وقت آئے تو شتربن جاتا ہے یعنی کام سے بھاگتا ہے۔

(جاری ہے)


ڈرامے میں کرتوغلو ، کوچابش اور سعدالدین کوپیک جیسے مختلف چہروں کو بے نقاب کرتے ارطغرل غازی نے پاکستان کے سیکولر طبقے کے چہرے پر پڑاہوا پہلا نقاب غیرجابنداری اورروشن خیالی کا سرکا یا ہے ۔

یہی وہ طبقہ تھا جس نے بے حیائی کا سامان صرف دوسرے ممالک سے امپورٹ کرنے کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ اسے سکرین کی زینت بنانے میں بھی صف اوّل کا کردار اداکیا۔جب بھی اسلامی روایات اور مقامی تہذیب کو تار تار کرتے کسی حیا باختہ ڈرامے یا فلم پر کسی فرد یا گروہ نے صدائے احتجاج بلند کی تو اس طبقے نے یہ کہہ کر اس کا ناطقہ بند کردیا کہ فلم اور ڈرامے کا تعلق آرٹ سے ہے اور آرٹ کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔

لیکن جب سے ارطغرل نے پاکستان میں قدم جمائے ہیں اسی طبقے نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ارطغرل کی بجائے ہمیں مقامی ہیروز کو متعارف کرانا اور دکھانا چاہیے۔یعنی جب بات انڈین اور مغربی فلموں کی پاکستان میں نمائش کی ہو تویہ طبقہ ”بین الاقوامی“ بن جاتا ہے اور جب اسی اصول کے تحت غازی ارطغرل کی نمائش کی جائے تو یہ طبقہ ”مقامی “بن جاتا ہے ۔

بھئی سیدھی سی بات ہے کہ اگر تم آرٹ کی بین الاقوامیت پر یقین رکھتے ہو تو ارطغرل پر اعتراض کیوں اور اگر تم مقامی ہوتو مغربی اور انڈین فلموں کی وکالت کیوں؟جب یہ نقاب ہٹ گیا تو شتر مرغ کی طرح نیت کے کھوٹ کو ظاہر کرتا ایک اور نقاب چڑھایاگیاکہ ”اس ڈرامے کی وجہ سے مقامی کلچر کو نقصان ہوگااو ر ترکی کا کلچر پروموٹ ہوگا“۔بھئی بلی کب سے دودھ کی رکھوالی کرنے لگی؟اور ویسے بھی اگر انڈین اور مغربی فلمیں دیکھنے سے پاکستانی کلچر کا نقصان نہیں ہوا تو خاطر جمع رکھیے اس ڈرامے سے بھی کوئی نقصان نہیں ہو گا۔


غرضیکہ ارطغرل کی مخالفت کرتے سیکولر، لادین اور ملحد طبقے کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ارطغرل غیرملکی ڈراما ہے بلکہ انہیں درد اس بات کا ہے کہ ڈرامے نے ان کی بسائی دنیابگاڑ دی ہے ؟ اس ڈرامے نے یہ نقاب بھی الٹ دیا ہے کہ پاکستانیوں کے ہیرو ٹام کروز، ون ڈیزل ، رسل کرو ، جانی ڈیپ اور جارج کلونی جیسے لوگ نہیں بلکہ ارطغرل جیسے لوگ ہیں جن کے دلوں میں عظمت ِرسول اور خوفِ خدا کااحساس موجزن ہو اور ان کا جینا مرنااپنی ذات یا قبیلے کے نہیں بلکہ امت مسلمہ کے لیے ہو۔

خود غرضی کی بجائے جو بھی ملت کی بات کرے گا وہی مسلمانوں کا ہیرو بنے گا چاہے وہ چھ سات صدیاں پہلے کا ارطغرل غازی ہو یا آج کا طیب اردگان۔یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ دنیا کے ہر اسلامی ملک کی عوام اپنے حکمران کوبھلے نا پسندہی کرتی ہولیکن وہ طیب اردگان کو ضرور پسند کرتی ہے کیونکہ وہ صرف ترکی کی بات نہیں کرتا بلکہ ملت اسلامیہ کی بات کرتا ہے ۔

پاکستان ہی کیا، برما،بھارت، فلسطین ، ایران ، عراق یا شام مسلمان جہاں بھی ظلم و بربریت کا شکار ہوتے ہیں تو ارگان چیخ اٹھتا ہے اور یہی بات ہے ارطغرل اور طیب اردگان کے ہیرو بننے کی قدرمشترک ہے۔اب سیکولرطبقہ جتنا مرضی زور لگائے اگر کوئی کرتوغلو اور راجا داہر کو ہیرو نہ مانے تو اس میں ارطغرل یا محمد بن قاسم کا کیا قصور؟
ارطغرل غازی نے اس حقیقت سے بھی پردہ سرکا دیا ہے کہ کسی اسمبلی میں کھڑے ہوکر ایک تقریر جھاڑنے، ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلانے یا مقامی قرار دینے سے راجا داہر کو زبردستی ہیرو نہیں بنایا جاسکتا۔

آپ شوق سے راجا داہر کے ہیرو ہونے پر ٹرینڈبھی چلوائیں ،ڈراما بھی بنائیں اوریوٹیوب پر راجا داہر نامی چینل بھی بنالیں آپ کو کس نے روکا ہے لیکن اگر ارطغرل غازی کی طرح اس کی پہلی قسط ایک ہی ہفتے میں ڈیڑھ کروڑ کی ویورشپ کو نہ پہنچے ، نہ ہی وہ یوٹیوب ٹرینڈنگ پینل پر کئی دن نمبر ون پوزیشن پر برقرار رہے، نہ ہی اس چینل کو ایک ڈیڑھ ہفتے میں ساٹھ لاکھ لوگ (6000000)وزٹ کریں، نہ ہی بیس دنوں میں اسے 2.28 ملین لوگ سبسکرائب کریں اورنہ ہی اسے بین الاقوامی سطح پر 500 ارب مرتبہ دیکھا جائے تو پھر مان لیجیے کہ ہیرووہ راجا داہر نہیں جس کے گیت آپ اسمبلیوں میں گائیں اور نہ ہی وہ سپائیڈرمین اور سپر مین ہیں جن کی تشہیر پر آپ کروڑوں روپے خرچتے ہیں بلکہ ان کے ہیرو محمد بن قاسم اور غازی ارطغرل جیسے وہ لوگ ہیں جن کے روپ میں ہر مسلمان اپنا آپ دیکھتا ہے ۔

یہ نقاب بھی سرک گیا ہے کہ اس طبقے کو کبھی مقامی ہیروز کا خیال بھی تھا۔اسی طبقے نے ان ڈراموں پر تنقید کی تھی جو ایسے مقامی افراد پر بنائے گئے تھے جنہوں نے انگریز سرکارکو تسلیم کرنے کی بجائے ان کے خلاف مزاحمت کی تھی اور ایسے ڈراموں کی حوصلہ افزائی کی جس میں اسلامی خاندانی نظام کا مذاق اڑایا جائے ، شادی شدہ عورت دوسرے مردوں سے یارانے لڑائے ، لڑکی گھرسے بھاگ کر شادی کرے ، نوجوان بچیاں رات باہر گزارنے کو شخصی خودمختاری کہیں ، ساس بہو کے جھگڑے عروج پر ہوں اورمقدس رشتوں کو ڈائیلاگ کے نام پر رگڑا لگایا جائے ۔

جب کہا جاتا کہ اس طرح کے ڈرامے مناسب نہیں تو جواب دیا جاتاکہ قوم یہی دیکھنا چاہتی ہے اوراسلامی تاریخی موضوعات اور مقامی ہیروز پر بننے والے ڈرامے فلاپ ہو جائیں گے ۔ ارطغرل غازی نے اس پروپیگنڈے کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔
جب بات نہ بنی تو یہ نقاب اوڑھ لیا گیاکہ اس ڈرامے میں کام کرنے والے لوگ حقیقی زندگی میں بہت زیادہ بولڈ ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر اس ڈرامے میں کام کرنے والے اداکارحقیقی زندگی میں واقعی بولڈ ہیں تو پھر ان سے اتنی تکلیف کیوں؟ارطغرل نے اس نقاب کو بھی پلٹادیا ہے کہ مسئلہ ان کے بولڈ ہونے سے نہیں بلکہ اس بات سے ہے کہ بھلے ڈرامے میں سہی لیکن وہ اسلام ، اللہ ورسول اور قرآن و حدیث کی بات کیوں کرتے ہیں ؟اسی ایک بات نے انہیں انتہائی بولڈ ہوتے ہوئے بھی اس طبقے کی نظر میں مجرم بنا دیا ہے۔


جب یہ پردہ بھی چاک ہو گیا توکہاگیاکہ ڈراما غیرحقیقی ہے۔جناب!آپ شوق سے اسے غیرحقیقی کہیں لیکن کتابوں میں لکھی اس حقیقت کو کیسے جھٹلائیں گے کہ قائی قبیلے نے صدیوں دنیا پر راج کیا تھااور مغربی سفیرسلمان شاہ کے حضور کو عرضیاں پیش کیا کرتے تھے ؟ ترکی میں موجود ارطغرل کے مزار کو صفحہ ہستی سے کیسے مٹائیں گے؟اس کے بیٹے عثمان اوّل کی قبر ، اس کی بنائی سلطنت عثمانیہ اور اس سے کیے گئے معاہدہ لوزان کو کیسے جھٹلائیں گے؟غازی ارطغرل کے پہلو میں واقع اس کے جانثار ساتھی ترگت کی قبر کا انکارکیسے کریں گے اورترکی کے میوزیم میں موجود اس کے مشہور عام کلہاڑے کو کیسے غائب کریں گے؟حقیقت یہی ہے کہ ارطغرل نے بہت سوں کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوڑا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :