
پاکستان نہیں پاکستانی اوپر جا رہا ہے !
بدھ 16 جون 2021

کوثر عباس
(جاری ہے)
بہرحال بات چلی تھی پاکستان کے اوپر جانے سے اورکہاں سے کہاں جا پہنچی۔ مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میں کاغذ قلم تھامے کالم لکھ رہا ہوں نہ کہ کسی کنٹینر پر کھڑا تقریر کر رہا ہوں۔ہوش آتے ہی واپس کالم کی طرف آیا تو بجٹ پیش کر دیا گیا تھا۔بجٹ پیش کرنے میں پوری حکومت ہی بہت سنجیدہ تھی لیکن ایک معزز رکن کی سنجیدگی نے تو میرا دھواں نکال دیا ۔وہ بیچارہ ”بلو ، بلو ، بلو ...... “ پکار رہا تھا ۔میں نے بہت سوچا کہ بجٹ میں بلو کا کیا کام لیکن بات بن نہیں پائی۔اچانک مجھے چاچا صادق نامی ایک امین انسان یاد آیا جس کی امانت اس کی فیملی کے سواسبھی مانتے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ اس کی ایک بلو تھی جو پچھلی حکومت میں سستائی کے بوجھ تلے دب کر مر گئی ۔ آج جب ایک مہنگا اور قیمتی بجٹ پیش ہوا ہے تو اسے اپنی مرحوم بلو یاد آ رہی ہیں کہ کاش وہ زندہ ہوتی تو اسے معلوم ہوتا کہ بائیس سالہ محنت کے بعد بجٹ کیسے لشکارے نکالتا ہے۔میں نے پوچھا:سستائی اور بوجھ؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔بابا جی کہنے لگے :تمہیں بھی ابو کی طرح لیٹ ہی سمجھ آتا ہے ۔میں نے پوچھا: چاچا جی کوئی ایک مثال؟ کہنے لگے: پچھلی حکومت میں مثلا چینی سستی تھی تو اس کی بلوکیبنٹ کے علم میں لائے بغیر کچن میں گھس گئی اورجی بھر کے اتنی چینی کھائی کہ اسے شوگر ہوگئی اور وہ مر گئی ۔یہ رکن سوچ رہا ہے کہ کاش چینی آج کی طرح مہنگی ہوتی تو بلو چمچوں کے حساب سے ”پھکنے“ کی بجائے دانہ دانہ گن کر چوستی ، نہ اسے شوگر ہوتی اور نہ ہی وہ مرتی ۔تم تو ٹھہرے پٹواری، پڑھے لکھے ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا ناں کہ پچھلے دور میں چوروں نے کیسے چاچا ٹیسا پہلوی کی ”کالی قمیص“ (عموماً قمیض لکھا جاتا ہے جو غلط ہے)چرا کراپنی بدصورت مہنگائی نامی معشوقہ کو پہنا کر اسے سستائی بنا کر پیش کیے رکھا؟
میں نے کہا: چاچا جی! تو وہ قمیص یہ کیوں استعمال نہیں کرتے ؟چاچا جی نے پاس پڑ ی ہوئی پرچیوں کوبل کی طرح پھاڑا اور اس کی پرچیاں فضا میں اڑاتے ہوئے بولے:یہ لوگ اس ملک کی آخری امید ہیں ۔یہ چوروں کے نقش قدم پر چلنا بالکل گوارا نہیں کریں گے۔عوام اور ملک سے ان کی کمٹمٹ اس قدر خالص ہے کہ یہ امانتدار مہنگائی کو تو گلے لگا لیں گے لیکن کرپٹ سستائی کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔اسی خلوص کا صدقہ ہے کہ ملک ریاست مدینہ کا نقشہ پیش کر رہا ہے ۔میں نے پوچھا : وہ کیسے؟چاچا صادق ایک بار جھوما اورمخمور لہجے میں کہنے لگا : کفایت شعاری اور ایثار ، صرف ان دو لفظوں پر غور کرو تمہیں ساری بات سمجھ آ جائے گی ۔میں نے کہا چاچا میں تو ٹھہرا پٹواری آپ ہی بتا دیں۔چاچا کہنے لگا :پہلے دور میں ناقص پالیسیوں کی وجہ سے لوگ فضول خرچ ہو گئے تھے ۔اب دیکھو ناں کیسے ایک ایک چیز دھیان سے خرچ کرتے ہیں ۔پہلے ہم اتنے کنجوس تھے کہ گندم ذخیرہ کر لیتے تھے لیکن اب ہم میں ایثار کااتنا جذبہ پیدا ہو گیا ہے کہ خود بھوکے رہ کر ہمسایہ ملک کو دے دیتے ہیں ۔یہ صرف ”امین“ مہنگائی کی وجہ سے ممکن ہو پایا ہے ۔
چاچا جی نے اپنی چادر اٹھائی،کندھے پر رکھی اورگویا ہوئے : ربّ راکھا!پاکستان بڑی تیزی سے اوپر جا رہا ہے۔میں ٹھہرا بوڑھا انسان۔ اب چلتا ہوں کہیں پیچھے ہی نہ رہ جاوٴں ۔وہ چلے گئے تو میں نے ویران گلی کی طرف دیکھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے واقعی میرا پاکستان مجھ سے بہت اوپر چلا گیا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
کوثر عباس کے کالمز
-
میری بیلن ڈائن!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
اسامی خالی ہیں !
ہفتہ 12 فروری 2022
-
ایک کہانی بڑی پرانی !
بدھ 26 جنوری 2022
-
اُف ! ایک بار پھر وہی کیلا ؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
نمک مت چھڑکیں!
جمعرات 13 جنوری 2022
-
دن کا اندھیرا روشن ہے !
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
سانحہ سیالکوٹ: حکومت ، علماء اور محققین کے لیے دو انتہائی اہم پہلو
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
بس ایک بوتل!
اتوار 5 دسمبر 2021
کوثر عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.