عجب محبت غضب کہانی

جمعہ 13 اگست 2021

Kausar Abbas

کوثر عباس

سنا ہے مجنوں کی بات لیلیٰ سے پکی ہو ہی چلی تھی کہ ایک انہونی ہو گئی ۔ہوا یہ کہ اچانک ایک کتا سامنے آ گیا ، مجنوں جھٹ سے اٹھا اور اس کے پاوٴں چومنے لگا ۔لیلیٰ کے گھر والوں کو بڑی مشکل سے قائل کیا گیا تھا کہ قیس پاگل نہیں بس لیلیٰ کی محبت میں دیوانہ ہے ۔اگر اسے لیلیٰ مل جائے تو اس سے بڑا عقلمند کوئی نہیں ۔بات بھی کسی حد تک صحیح تھی ۔

یہ قیس ہی تو تھا جس کی پڑھائی اور دانش کے قصے عرب میں مشہور تھے ۔ایک رات موصوف نے پڑھنا تھا کہ دیے میں تیل ختم ہو گیا ۔پاس سے مشعلیں اٹھائے ایک بارات گزر رہی تھی ۔قیس نے کتاب اٹھائی اور بارات کے ساتھ چلنا شروع کر دیا ۔ مشعلوں کی روشنی میں جب سبق ازبر ہو گیا تو واپسی کی راہ لی۔ مزید کئی قصے بھی نہ صرف لیلیٰ کے گھر والوں نے بلکہ اس معاشرے کے باقی افراد نے بھی سن رکھے تھے ۔

(جاری ہے)

کچھ ماضی کے یہ واقعات اور کچھ مجنوں کے گھر والوں کی محنت رنگ لائی اور مجنوں کی نسبت پکی ہو گئی لیکن برا ہو اس کتے کا جو اچانک سین میں داخل ہوا اور پوری فلم کا ستیا ناس کر دیا ۔مجنوں چیختا رہ گیا کہ میں پاگل نہیں بلکہ میں نے اس کتے کے پاوٴں اس لیے چومے ہیں کیونکہ یہ لیلیٰ کی گلی سے گزرا تھا ۔میری یہ حرکت کسی پاگل پن کی وجہ سے نہیں بلکہ اس نسبت کی وجہ سے تھی۔


محبت کی یہ داستانیں بھی ٹھیک ہیں اور آج تک انہی کی مثالیں بھی دی جاتی ہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ لیلیٰ مجنوں ، ہیر رانجھا ، سسی پنوں ،سوہنی ماہیوال اور شیریں فرہاد وغیرہ کی داستانیں سچی تھیں اور وہی سچے عاشق تھے ۔مرزا صاحباں سے عشق کی ایسی بدنامی اور زوال شروع ہواجو آج بھی جاری ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اب وہ والی سچی محبتیں نہیں رہیں بلکہ اب محبت صرف ذاتی مفاد اور حرص و ہوس کا نام ہے ۔

اب کے مجنوں خون دینے والے نہیں بلکہ چوری کھانے والے ہیں ۔اب نہ تو کوئی کسی کی خاطر کچے گھڑے پر تیرنے کو تیار ہے ،نہ کوئی کسی کی خاطر ران کا گوشت الگ کرنے پر راضی ہے ،نہ ہی کوئی کسی کی خاطر تھل کے صحراوٴں میں خاک درگور ہونے پر راضی ہے اور نہ ہی کوئی کسی کے لیے تیشے سے نہر کھودنے کے لیے تیار ہے ۔محبت تو محبت اب تو لوگ مفاد نہ ہو تو نفرت بھی نہیں کرتے ۔


ہو سکتا ہے کہ آپ لوگ اس بات سے اتفاق کر لیں کہ اب محبت خودغرضی اور ذاتی مفاد کا دوسرا نام ہے بلکہ آپ ہی کیا ،قریب تھا کہ میں بھی مان لیتا لیکن اچانک بازارِ عشق میں ”یوتھ عمران “ نامی ایک جوڑے کی انٹری ہوئی اور مجھے دوبارہ محبت پر یقین ہونے لگا ۔ یہ پریمی جوڑا کئی حوالوں سے ہیر رانجھا اور لیلیٰ مجنوں سے اعلیٰ اور کئی حوالوں سے سسی پنوں اور شیریں فرہاد سے مماثل بھی ہے ۔

میں نے آج تک مشرق اور مغرب کے کسی پریمی جوڑے کے ایسے احوال نہیں پڑھے جو تین سالوں اس جوڑے کے پڑھے ہیں ۔کیا آپ نے آج تک پڑھا ہے کہ کسی معشوق نے کہا ہو کہ سال کے پندرہ مہینے ہوتے ہیں اور عاشق نے آنکھیں بند کر کے یقین کر لیا ہو ؟لیکن دورِ جدید کی اس لازوال محبت کی داستان میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں کہ معشوق نے کہا کہ سال میں بارہ موسم ہوتے ہیں اور عاشقوں نے انگلیوں پر گنوا بھی دیے ۔

ایسا بھی ہوا کہ محبوب نے کہا کہ درخت آکسیجن خارج کرتے ہیں اور عاشقوں نے سائنسی تحقیقات کو پاوٴں تلے روند ڈالا ۔یہ اس داستان کی آفاقیت نہیں تو اور کیا ہے کہ محبوب گویا ہوا کہ سپیڈ کی لائٹ ہوتی ہے اور عاشقوں نے دھمال ڈالنا شروع کر دی ۔اس داستان کی سچائی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ محبوب نے گلاب لب کھولے کہ جاپان جرمنی کا بارڈر ایک ہے تو محبان ِ راہِ وفا نے علم جغرافیہ پر لکھی مستند کتابیں نذرِ آتش کر دیں ۔

بلکہ اس محبت کا ایک رخ اور بھی ہے جو مشرق و مغرب کی کسی اور مجازی داستان میں نہیں ملتا ۔آپ نے رقابت کا لفظ سنا ہو گا۔ محبت کسی صورت رقیب کو قبول نہیں کرتی لیکن اس پریمی جوڑے میں محبوب ایک ہے اور عاشق لاکھوں کی تعداد میں لیکن ان میں رقابت پائی جاتی ہے اور نہ کسی بات پر اختلاف ہوتا ہے ۔میں اس نتیجے پر آج تک نہیں پہنچ پایا کہ ان عاشقوں کی ذہنی ہیئت ہی ایک جیسی ہے یا ان میں پایا جانے والا اتفاق مثالی ہے ؟
محبت نے جب بھی قربانی مانگی تو تخت بھی چھوڑا گیا ، خون بھی دیا گیا ، بھینسیں بھی چرائی گئیں اور دار و رسن بھی قبول کرنا پڑے ۔

”یوتھ عمران“ نامی جوڑے کی محبت بھی ہر آزمائش میں کھری اتر رہی ہے ۔ٹیکس لگا کر خون نچوڑا جائے یا مہنگائی کا تیشہ ہاتھ میں تھما کر اپنی معاشی قبر کھودنے کا حکم دیا جائے ، عاشقوں نے ہر قربانی کو نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ تنقید کرنے والوں کی ایسی کی تیسی بھی کی ہے ۔
اگر پرانی داستانوں میں عاشق محبت میں تخت چھوڑتے تھے تو اس داستان میں عاشق تہذیب چھوڑ رہے ہیں ، اگر کسی نے تیشے سے نہر کھودی تھی تو اس داستان کا عاشق اپنے ہاتھوں روایات کی قبر کھود رہا ہے ، اگر مجنوں نے خون دیا تھا تو اس داستاں کا ہیرو گالیاں دے رہا ہے ، اگر انہوں نے راہ محبت میں سب کچھ لٹا دیا تھا تو کیا آج عقل نہیں لٹایا جا رہا ؟اگر کل کی داستانوں میں محبوب ہی سب کچھ تھا تو آج بھی وہی سب کچھ ہے اور اسی کی بات درست ہے چاہے پوری دنیا اس کی تردید کرر ہی ہو ۔

پھر میں کیسے مانوں کہ سچی محبتیں اور دیوانے عاشق مر چکے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :