والدین بنیں قاتل نہیں !

جمعرات 11 نومبر 2021

Kausar Abbas

کوثر عباس

”یہ جینا بھی بھلا کوئی جینا ہے ؟ اس سے تو موت ہی اچھی ہے “ یہ اس کا آخری میسج تھااور پھر اس نے ہاسٹل کی چھت سے کود کر خودکشی کر لی ۔
 نام سارہ ، عمر اٹھارہ سال، بی ڈی ایس فرسٹ ائیر کی طالبہ، کلاس ٹیسٹ، شدید ذہنی دباوٴ ،برداشت نہ کر سکی ، بے ہوش ہو گئی، کلاس ٹیچر نے ڈراما قرار دیا، ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ(H.O.D) نے کہا: اپنے ذہنی مسائل حل کر کے کالج آیا کریں یا آیا ہی نہ کریں ،سنا ہے کہ بلکہ کہا گیا اس سے تو موت بہتر ہے ،اب وہ بھلا کہاں جاتی اور کیا کرتی ، دن بھر سوچا اور رات آٹھ بجے کے لگ بھگ ہاسٹل کی چھت سے کود کر خود کشی کر لی ۔


مبینہ طور پر یہ لاہور کے ایک نجی میڈکل کالج کا واقعہ ہے ۔کالج والوں کا کہنا ہے کہ لڑکی سیلفی لیتے ہوئے چھت سے گر گئی، لوگوں کا کہنا ہے: چھت پرتقریباًچار فٹ اونچی باوٴنڈری وال ، لہذا یہ نا ممکن ہے ، اگر غیرجانبدار اور متفقہ انکوائری رپورٹ آئی تو حقائق بھی سامنے آ جائیں گے ،ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ یہاں موقف سچ اور اصول کی بجائے پسند ناپسند اور مفادات کی بنیاد پر اپنایا جاتا ہے ،مثل منصور سولی پر بھی ”الحق “ کی صدا دینے والے تو کب کے زیر خاک سو گئے، لہذا حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے کہ لڑکی نے خود کشی کی ہے یا سیلفی لیتے ہوئے گری ہے ؟اگر خودکشی کی ہے کہ تو اس کی وجہ کالج کا مذکورہ بالا مبینہ رویہ ہے یا اس لڑکی کی کوئی ذاتی وجوہات لیکن ایک بات کنفرم ہے کہ ایک اٹھارہ سالہ لڑکی پر اتنا دباوٴ تھا کہ اس نے خودکشی کر لی۔

(جاری ہے)


 پنڈی گھیب کے نواحی علاقے نکہ کلاں کا محمد عرفان میرا جاننے والا ، حافظ قرآن لیکن منزل کچی ،رمضان کا مہینا شروع ہونے میں کچھ ہی دن باقی ، والد نے کہا:بیٹا! میری خواہش ہے کہ اس بار گاوٴں کی مسجد میں نماز تراویح آپ پڑھائیں ،بعد میں اس کے دوستوں نے بتایا: وہ بہت پریشان تھا، کہتا تھا کہ میری منزل پکی نہیں ، تراویح میں بہت غلطیاں ہوں گی، لوگ کہیں گے: اتنے سال حفظ میں لگائے پھر بھی منزل کچی ، یہ تو میری بلکہ والد کی بھی بے عزتی ہے ۔

ذہنی دباوٴ ، ماہ رمضان شروع ہونے سے ایک دن قبل سر میں گولی ماری اور آنجہانی ہو گیا۔
یہ صرف ایک یا دو واقعات نہیں بلکہ پچھلے کئی سالوں سے اس طرح کی خبریں متواتر اخبارات کی زینت بن رہی ہیں کہ فلاں نے فیل ہونے یا نمبر کم آنے کی وجہ سے خود کشی کر لی ۔اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ مدارس تو رہے ایک طرف خود حکومتی جامعات میں مینٹل ہیلتھ اور سٹریس منیجمینٹ کے ادارے تک موجود نہیں ہیں ۔

اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین کا رویہ بھی قابلِ مواخذہ ہے ۔اساتذہ نمبروں جبکہ یونیورسٹیاں رینکنگ کے چکر میں طلبہ کا بیڑا غرق کیے جا رہے ہیں ۔ایک طرف استاذ پریونیورسٹی کی طرف سے رزلٹ کا دباوٴ ہوتا ہے تو دوسری طرف طلبہ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ،لہذا وہ چڑ چڑے پن کا شکار ہو جاتا ہے ،بسا اوقات اپنی زبان پر قابو نہیں رکھ پاتا اور طلبہ پر سختی کرتا ہے۔

دوسری طرف والدین جیسے تیسے لاکھوں روپے فیس دے کر آنکھوں میں خواب سجائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ ان کی اولاد ڈاکٹر یا انجینئر بن کر ان کا نام روشن کرے گی ، لہذا نمبر کم آنے یا فیل ہونے کی صورت میں ان کا رویہ بھی جارحانہ ہو جاتا ہے ۔ ایک طرف یونیورسٹی اور اساتذہ اور دوسری طرف والدین کی سختی ،لہذا کمزور اعصاب والے طلبہ خودکشی کر لیتے ہیں ۔

یونیورسٹیوں اور کالجوں میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان بھی اس کی ایک بنیادی وجہ ہے ۔ہمارے ہاں کچھ عرصے سے قابلیت کی بجائے نمبرگیم ایک اہم فیکٹر بن گیا ہے ۔قابلیت کا معیار صرف نمبر ہیں جس کے لیے رٹے پر انحصار کیا جا رہا ہے اور رہی سہی کسر انگلش میڈیم کے خمار نے پوری کر لی ہے ۔اگر آپ کسی بھی پرائمری سکول میں جا کرجائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پورا نظام تعلیم رٹے کی کمزور اور ناپائیدار عمارت پر کھڑا ہے ۔

دس بارہ سالہ رٹے کا عادی طالب علم مرتے دم اس سے جان نہیں چھڑا سکتا ۔رٹے کی سب سے بڑی وجہ انگریزی ذریعہ تعلیم ہے ۔جو بچہ پوری طرح اپنی مادری زبان تک نہیں جانتا اسے انگریزی میں پڑھایا جا رہا ہے ۔ لہذا وہ صرف گھر اور سکول کی بے عزتی سے بچنے کے لیے رٹا لگا کر سبق سناتا چلا جاتا ہے لیکن جب وہ یونیورسٹی کلاسوں میں آتا ہے تو نصاب اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ رٹے سے اس کا احاطہ کرنا مشکل ہوتا ہے لہذا ناکامیوں اور خودکشیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔

اگر کوئی اس جال سے نکل بھی جائے تو وہ ڈگری ہولڈر تو بن جاتا ہے لیکن قابلیت سے کوسوں دور ہوتا ہے۔
قاتل نظا م ہے جس نے والدین ، اساتذہ اور طلبہ کو جکڑ رکھا ہے ، نظام کون بدلے گا؟ حکومت؟ لیکن ان کے بچے تو بیرون ملک پڑھتے ہیں جہاں ایسا نظام ہے ہی نہیں تو انہیں کیا پڑی ہے نظام بدلنے کی ،ان کے بچے بھی ان اداروں میں ہوتے تو والدین کو مسائل کا بتاتے ، ان کی بچوں کی خاطر ہی سہی لیکن مسائل تو حل ہو جاتے، ہماری آواز اس قدر شیریں نہیں ہے کہ ان کی سماعتوں کو اچھا لگے ۔

قابلیت کی بجائے نمبر ، رٹے کو فروغ دیتا انگریزی نظام تعلیم ، نمبر نہ کہ قابلیت ، یونیورسٹی سے ایچ اوڈی پر ، اس کا استاذ پر اوراستاذ کا طلبہ پر دباوٴ ،یہ بات تو یقینی ہے کہ حکومتوں اور اداروں نے سیدھا ہونا نہیں ہے لہذا والدین ہی ذمہ داری کا احساس کریں ، بچوں کو اپنی پسند کے مطابق پیشے کا انتخاب کرنے دیں، ناکامی یا کامیابی ،دونوں صورتوں میں ان کے دوست بنیں قاتل نہ بنیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :