موہنجوڈارو سے کراچی تک

ہفتہ 23 جنوری 2021

Khalid Farooq

خالد فاروق

روز اول سے انسان نے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کر دی تھیں۔ پہلے وہ پتھر کے دور میں رہا جہاں وہ جانوروں کاشکار کرتا اور جانوروں کا شکار بنتا رہا۔ پھر وہ پتھر کے دور اور غاروں سے نکلا اور زراعت کے دور میں داخل ہو گیا۔جہاں شخصی و سماجی ضرورت کے تحت وہ بستیاں آباد کرنے لگا اور بستیوں میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے قوائد و ضوابط اور قانون وضع کرنے لگا اس طرح انسان جنگلی اور وحشی پن چھوڑ کر تہذیب کے راستے پہ گامزن ہوا۔

چونکہ انسان فطرتاً آرام پسند واقع ہوا ہے اس لیے اس نے نت نئے طریقوں اور اشیا سے اپنی زندگی آسان بنانے کی مسلسل کوشش جاری رکھی اور یہ سفر پہلے سے کہیں زیادہ سرعت اور تندہی سے جاری ہے۔ آج انسان ترقی اور علم کے جس مقام پہ پہنچ گیا ہے وہ واقعی انسان کی قابلیت اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

(جاری ہے)

جیسے آج کے دور میں کچھ ممالک ترقی یافتہ، کچھ ترقی پزیر اور کچھ پسماندہ ہیں اسی طرح پرانے وقتوں میں بھی یہ فرق موجود تھا۔

جب انسانوں کی باقائدہ آبادیاں بھی خال خال تھیں تب بھی دنیا کے کچھ علاقوں میں آباد قومیں تہذیب و تمدن کی اس معراج پہ تھی جو آج بھی اکثر ممالک کے باشندوں کا خواب ہے۔ ان پرانی تہذیبوں میں سے ایک تہذیب وادی سندھ کی تہذیب کہلاتی ہے۔ جو2500 قبل مسیح اور آج سے تقریباً 4500 سو سال پہلے دریائے سندھ کے ساتھ آباد تھی۔ ہرپہ اور موہنجوڈارو اس کے دو انتہائی ترقی یافتہ شہر تھے، جو باقائدہ منصوبہ بندی کے تحت آباد کیے گئے تھے۔

ان کی گلیاں کھلی اور ہوا دار تھی، سیوریج کا انتہائی اعلی نظام موجود تھا۔ زیادہ تر نالیاں پختہ اور زیر زمین تھیں۔ کسی کو آنے جانے میں کوئی دشواری نہیں تھی راستے صاف ستھرے تھے۔
 انسان ہمیشہ سے آنے والے زمانے کے متعلق متجسس رہا ہے۔ جیسے آج ہم سوچتے ہیں کہ جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی آگے بڑھ رہی ہے آج سے کئی صدیاں بعد دنیا کس قدر جدید اور بہتر ہو جائے گی۔

اسی طر ح موہنجوڈارو کے ایک باشندے (موہن)کو یہ تجسس تھا کہ آج سے چار، پانچ ہزار سال بعد دنیا کس مقام پر ہو گی۔ انسان کس قدر ترقی یافتہ اور جدید ہو گا۔ موہن کی توقعات بہت بڑی اور ترقی پسندانہ تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ ہزاروں سال بعد کے شہر انتہائی صاف ستھرے اور بہترین طرز تعمیر کا نمونہ ہوں گے۔ اگرچہ موہنجوڈارو بھی بہت خوبصورت اور صاف ستھرا شہر تھا مگر موہن کی توقعات بہت بڑی تھیں۔

وہ کچھ حیران کن اور چونکا دینے والا دیکھنا چاہتا تھا۔ اپنی اسی حسرت کو دل میں لیے وہ وقت کا سفر طے(Time Travel) کرتے ہوئے اکیسویں صدی کے کراچی میں آن پہنچا۔ کراچی کی صفائی اور سیوریج کا شاندار نظام دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ موہن سوچ رہا تھا کہ یہ شہر اتنا گندہ کیوں ہے اور اس میں ہر طرف کوڑا کرکٹ اور سیوریج کا پانی کیوں پھیلا ہوا ہے۔

اپنی توقعات پہ یوں گندا پانی پھرنے پہ موہن بہت دل گرفتہ تھا۔ اسے شدید مایوسی اور دکھ ہو رہا تھا۔ اسی تکلیف اور سوچ میں گم وہ چل رہا تھا کہ اس کے کانوں میں کسی کی آواز پڑی "جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے"۔ اتنا سننا تھا کہ موہن نے وقت میں پیچھے کی طرف ڈور لگا دی۔ کراچی سے بھاگتے ہوئے موہن کی سماعتوں سے جو آخری الفاظ ٹکرائے وہ تھے "جئے بھٹو"۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :