
میٹھی نیند
جمعہ 15 مئی 2015

خالد ارشاد صوفی
(جاری ہے)
تیسری خبر یوکرائن کے ایک سیاستدان اینڈری فائروشنک سے متعلق ہے اینڈری مائروشک یوکرائن کی پارلیمنٹ کارکن ہے۔ایک فوٹو گرافر نے پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران موصوف کی اس وقت تصویر بنائی جب وہ اپنے موبائل فون سے پیغامات ارسال کرنے میں مصروف تھے۔ میڈیا میں اس تصویر سے ایک ہنگامہ کھڑاہوگیا اور اگلے روز اینڈری مائروشنک نے پارٹی کو اپنا استعفیٰ یہ کہہ کر پیش کر دیا کہ اگر میرے ووٹروں کو میرا طرز عمل ناشائستہ محسوس ہوا ہو تو میں اس پر معذرت خواہ ہوں۔مجھے ایوان میں بیٹھ کر ملکی ترقی کے لیے غور و خوض کرنا چاہیے تھا لیکن میں وہاں ایک دوست کو پیغامات ارسال کررہا تھا ۔جس پر میں بے حد شرمندہ ہوں اور خود کو عوام کی نمائندگی کا حقدار نہیں سمجھتا۔
ان دونوں خبروں کے بعد اب پہلی خبر پر توجہ دیجیے آج کے اخبارات کی شہ سرخی حلقہ این اے122کے دھاندلی کیس کے دوران نادرا کی طرف سے جمع کروائی گئی تفصیلی رپورٹ کے مطابق 93852ووٹوں کی تصدیق نہیں ہوسکتی جب کہ دیگر بے ضابطگیاں بھی سامنے آئی ہیں اس پر پی ٹی آئی کا موقف ہے ایاز صادق جعلی ووٹوں سے جیتے جبکہ ن لیگ کا موقف یہ ہے کہ اس رپورٹ میں منظم دھاندلی ثابت نہیں ہوئی۔ اسی طرح حلقہ125میں دونوں جماعتیں اسی طرح اپنے اپنے موقف پر کھڑی ہوتی ہیں۔بلکہ اب تو الیکشن ٹربیونل کے فیصلہ بھی منسوخ ہوچکاہے۔
تینوں خبروں کے بعد اپنے اس نوکیلے سوال کی طرف آتے ہیں۔ چلیے مان لیا کہ برطانیہ کو جمہوریت کی ماں کا درجہ حاصل ہے لہٰذا وہاں کے انتخابات اور سیاستدانوں کو قابل تعریف اور تقلید ہونا چاہیے لیکن یوکرائن جیسے شورش زدہ اور سیاسی انحطاط کے شکار ملک میں اینڈری مائروشنک نے جس باوقار طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ سبق ضرور حاصل کیا جاسکتاہے کہ گھپ اندھیرے سے روشن سویرے تک کا سفر طے کرنے کے لیے کسی نہ کسی کو تو پہلا دیا جلانا ہی ہوتاہے۔
یوکرائن کے سیاسی حالات ہم سے کہیں زیادہ بگاڑ اور بدصورتی کے مظہر ہیں لیکن جب ملک میں میڈیا حق کا پرچار کرنے لگے اور عوام بیدار ہو جائیں تو سیاست دانوں کے ضمیر بھی مفادات کی گہری نیند سے بیدار ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ اس حقیقت کا ادارک کرنا پڑتاہے کہ ارض پاک میں گھپ اندھیرے سے روشن سویرے کی منزل کے لیے کوئی عازم سفر ہونے کے لیے تیار نہیں میڈیا مالکان کا تعلق کارپوریٹ کمیونٹی سے ہے اور ان کے مفادات سیاستدانوں سے وابستہ ہیں لہٰذا حق کاپرچار کون کرے گا۔اگرکسی سیاسی معاملے میں کاروباری مفادات کو ٹھیس نہیں پہنچی۔تو کبھی کبھار سیاستدانوں کے کرتوتوں پر بھی ایک آدھ خبر چلا دی جاتی ہے او ر اس کے بعد عوام کو لمبی تقریریں سننے کی سزا ملتی ہے۔ جب میڈیا میں ”کھرا سچ“ بولنے والے اور ”مقابل“ آنے والے کے پیچھے ذاتی تعصب،عناد اور مفاد چھپا ہوا ہو اور عوام دال روٹی کے مسائل میں ڈوبے ہوں تو سیاستدان بھی اپنے ضمیر کو ”میٹھی نیند“ سے بیدار کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور وزیر سے مشیر بن جاتے ہیں لیکن اپنے”حسین خواب“ کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیتے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد ارشاد صوفی کے کالمز
-
”کون لوگ اوتُسی“
جمعہ 3 نومبر 2017
-
عمران خان کو حکومت مل جائے تو…؟؟؟
جمعرات 26 اکتوبر 2017
-
مصنوعی ذہانت ۔ آخری قسط
بدھ 18 اکتوبر 2017
-
کیریئر کونسلنگ
اتوار 17 ستمبر 2017
-
اے وطن پیارے وطن
بدھ 16 اگست 2017
-
نواز شریف کا طرز سیاست
ہفتہ 12 اگست 2017
-
پی ٹی آئی کا المیہ
منگل 8 اگست 2017
-
اب کیا ہو گا؟
بدھ 2 اگست 2017
خالد ارشاد صوفی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.