بھٹو پارٹی

پیر 27 جولائی 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہماری ہمدردی اس نظریاتی کارکن سے ہے جو اس وقت عہد تنہائی میں جی رہا ہے،مگرتعلق پھر بھی پارٹی سے رکھتا ہے،اسکی سر بلندی دیکھنے کا آرزومند ہے،ایک زمانہ تھا جب صوبوں کی زنجیر کے نعرے فضا میں بلند ہوتے تھے ، مگر اب اسکی حکمرانی کو ایک صوبہ تک محدود کر دیا گیا،اس وقت جو قیادت پارٹی کی ڈرایئونگ سیٹ پر برا جمان ہے وہ مطلوب نیب ہے،نسل نو کا یہ گمان ہے کہ اس پارٹی کا خمیر ہی بدعنوانی سے اٹھا تھا، اس فکر نے جہاں عام ورکر کو بددل کیا ہے وہاں ووٹر بھی اس سے نالاں ہے،بانی پارٹی کی شخصیت کا مطالعہ ہماری سیاسی تاریخ کا لازمی جزو ہے،ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ایک اہم کردار تھے،عمومی رائے یہ ہے کہ اپنے دور اقتدار میں وہ زیادہ دوست تو نہ بنا سکے لیکن دشمنوں کی صف میں اضافہ کرتے چلے گئے اگر ان کے ناقدین انھیں ”ایول جیئنیس“ کہتے تھے تو انکے مداحوں کی بھی کوئی کمی نہ تھی،ایک طرف انکو سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار مانا جاتا ہے تو دوسری طرف خالق آئین بھی کہا جاتا ہے، تاہم مخالفین بعض قومی خدمات پرانکے معترف بھی ہیں، ان سے نظریاتی اختلاف کی گنجائش تو ممکن ہے مگر عام آدمی کو عہد آمریت میں زبان دینے کا سہرا ا ن کے سر ہے۔

(جاری ہے)


مسٹر بھٹو ان چند معدودے سربراہان مملکت سے تھے جنہوں نے حالت اسیری اورنامساعد حالات میں بدیشی زبان میں کتب تصنیف کی ہیں،دور آمریت میں سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر لکھی جانے والی کتب” اگر میں قتل کیا گیا“ اور حقیقت اور افواہیں“ علمی حلقوں میں مقبول ہیں، تاہم بعدالذکر کا ایک ہی ایڈیشن شائع ہوا،انکے متراجم بھی دستیاب ہیں،مسٹر بھٹو جب پابندسلاسل تھے تو اس وقت کی سرکار نے انکی حکومت کی بابت بہت سے قرطاس ابیض (وائٹ پیپر ز) نکالے تھے مگر تمام تر کاوش کے باوجود مسٹر بھٹو پر مالی بدعنوانی کا کوئی الزام نہ دھرا جا سکا،ہم ذیل میں مجاہد لاہوری کی مترجم شدہ کتاب ( اگر میں قتل کیا گیا) سے کچھ حوالے قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کرتے ہیں۔


بھٹو مرحوم کہتے ہیں کہ 1958 میں عہد ایوب کے سنہری دور میں انکو وزیر تجارت بنا دیا گیا،یہ لٹیرے سرداروں کا زمانہ تھا،منظم اور وسیع پیمانے پر رشوت ستانی نے سر اٹھالیا،میں کراچی میں ایک استقبالیہ میں مدعو تھا ایک پست قد صنعت کارنے دل لگی کے انداز میں کہا،مارشل لاء کی چور بازاری کو کوئی نہیں روک سکتا،میں نے پوچھا آپ بھی اس میں ملوث ہیں،اس نے جواباً کہا کہ اگرسچ سچ بتاتا ہوں کہ بھی ملوث ہوں ورنہ میرا کاروبار بند ہو جائے گا،یہ سن کر میں نے اسکی فوری گرفتاری کا حکم دیا یہ خبر نیو یارک ٹائم میں چھپی لیکن پاکستان میں روک لی گئی،مسٹر بھٹو کہتے ہیں سابق جنرل ایوب کے دورحکومت میں وہ چند معدودے وزراء میں سے تھے جن کے ہاتھ صاف تھے۔


دوسری روایت ہے کہ مسٹر بھٹو اپنی اہلیہ کے ساتھ پیرس گئے جہاں وہ ایک دعوت میں مدعو تھے اس میں انتہائی دولت مند اہم مسلم پڑوسی ملک کی شہزادی بھی مدعو تھی،کھانے کے بعد مسٹراور مسزبھٹو ہوٹل میں اس کے کمرہ میں گئے وہ ایک قیمتی ہیرے سے کھیل رہی تھی،پاکستانی سیاست بھی زیر بحث تھی،اس نے کہا بھٹو صاحب سے کہا،دیکھو ذوالفقار! اگر تم پاکستان کے صدر واقعی بن گئے تو میں یہ ہیرا نذر کروں گی، ہم سب انکی بات پر کھلکھلا کر ہنسے ، کئی سال کے بعد جب بحثیت صدر مسٹر بھٹو اپنی اہلیہ کے ہمراہ ان کے عظیم ملک گئے تو اس نے دونوں کو اپنے محل میں مدعو کیا، شہزادی نے ایک لفافہ میں بند پیکٹ ان کے حوالہ کیا اور اسکو کھولنے کو کہا جب کھولا تو اس میں وہی قیمتی ہیرا تھا،موصوفہ
 کہنے لگی کہ ہم اپنے وعدے توڑا نہیں کرتے،اس نے اصرار کیا کہ اسکو قبول کریں، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں،دونوں نے کہا وہ انکی مجبوری سمجھے، بھٹو مرحوم نے کہا اس ہیرے کو تحفتاً لے جاناممکن ہی نہیں ، یہ ہیرا آپ اپنے پاس ہی رکھیں،بڑی منت سماجت کے بعد یہ بات شہزادی کی سمجھ میں آگئی۔


دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے وطن عزیز میں انعقاد سے مسٹر بھٹو کو نئی شہرت ملی وہ اسلامی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جارہے تھے، خادمین حرمیں شریفین کے ساتھ انکا قلبی تعلق تھا،یہ اکتوبر1976کا واقعہ کہ جب سعودی فرمانروا شاہ خالد بن عبدالعزیز پاکستان کے دورہ پر آئے،تو انھوں نے ایک کار رولس رائس ذاتی تحفہ کے طور پر مسٹر بھٹو کو پیش کی،بھٹو نے فیاضانہ تحفہ پراحترام کے ساتھ انکا شکریہ اد کیا اور کار ذاتی استعمال میں رکھنے کی بجائے اسکو سرکاری ریکارڈ کا حصہ بنا دیا، حالانکہ اس سے قبل سابق گورنر جنرل غلام محمد اسی شاہی خامدان سے سرکاری تحفہ میں ملنے والی کیڈلک کار اپنے نام کر چکے تھے۔


کیا طرفہ تماشہ ہے اس پارٹی سے وابستہ سابق وزراء اعظم کو بھی سرکاری گاڑیوں اور قیمتی ہار کی پاداش میں بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا ہے جس سے انکے محبوب قائد ہمیشہ صرف نظر کرتے رہے،جس عجلت میں انکی پیش رُو قیادت نے فرمودات بھٹو کو یکسر فراموش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے،زندان میں سابق وزیر اعظم مسٹر بھٹو کی بے بسی اور پارٹی ورکر کی بے اعتنائی کا تذکرہ کرنل رفیع نے بھی اپنی کتاب میں کیا ہے وہ مسٹر بھٹو کے حوالہ سے رقم کرتے ہیں کہ بھٹو شکوہ کناں تھے میرے وکلاء نے میرا کیس خراب کیا ہے،میری پارٹی کومردہ بھٹو کی ضرورت ہے زندہ کی نہیں، انکی نیک دختر جسکی سیاسی تربیت انکے زیر سایہ ہوئی وہ بھی بدعنوانی کے الزامات کی پاداش میں دو مرتبہ اقتدار سے نکال باہر کی گئیں، انکے داماد اور ملک کے سابق صدر بھی اچھی شہرت نہ پا سکے، پارٹی کے کچھ بہی خواہ اسکو موروثی انداز کی بجائے منشور اور قائدے کے مطابق چلانے کے خواہش مند تھے مگر انکو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ،یہ اسی کا فیض ہے کہ کراچی کی پہچان بھتہ خوری بن گئی اور نامور جرائم پیشہ افراد نے سیاسی دست شفقت سے عام شہریوں کا جینا دو بھر کر دیا۔

بڑے بڑے مالیاتی سکینڈل اب اس پارٹی سے منسوب کئے جاتے جس کے بانی نے کبھی اپنے دامن کو مالیاتی آلائشوں سے آلودہ نہیں ہونے دیا جس کا اعتراف انکے مخالفین بھی کرتے ہیں۔
پارلیمنیٹ میں اسکی نمائندگی موجود ہے،بھٹو مرحوم کے نواسے پر قیادت کا بوجھ ہے وہ آئین، قانون کی حکمرانی اور سول اداروں کی بالادستی کا خواب دیکھ رہے ہیں اس پر لب کشائی بھی کرتے ہیں اس جانب قدم اٹھانے کی تڑپ بھی رکھتے ہیں مگر پارٹی کی بدعنوانی انکے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے اب انکی پشت پر نظریاتی کارکن نہیں ہیں،جب تلک پارٹی قیادت ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر فیصلے نہیں کرے گی کوئی بھی ان پر اعتماد نہیں کرے گا، نہ ہی وہ پارٹی کارکنان کو تنہائی سے نکالنے میں کامیاب ہوں گے، اس قحط الرجال میں نظریاتی سیاست کی اشد ضرورت ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کوڑے کھانے کے لئے تو عام ورکر دستیاب ہو مگر مراعات صاحب ثروت کا ہی مقدر بنی رہیں بھلا یہ بھٹو پارٹی کیسے ہو سکتی ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :