
جماعت اسلامی کا قیام
اتوار 30 اگست 2020

خالد محمود فیصل
(جاری ہے)
جنہوں نے اس کو گھاٹے کا سودا خیال نہ کیا انکے سامنے اخروی کامیابی تھی وہ دینا میں اعلی اخلاق کا نمونہ قرار پائے،،قحط الرجال کے اس سماج میں بھی ان ہستیوں نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ،وہ لوگ جنہوں نے زمانہ طالب علمی اور عہد شباب میں اس جماعت کے نظریہ کو قبول کیا،اس کے لٹریچر کا مطالعہ کیا،اور اس کے پلیٹ فارم سے اپنی صلاحیتوں کو جلا بخشی وہ بھی اس تعلق کو باعث اعزاز قرار دیتے ہیں، صدی کے مجدد، مفکر،سیاسی راہنماء کی تحریک کے اثرات آج پوری دنیا میں صاف نظر آرہے ہیں۔
اس مجدد، مفکر کی تحریروں نے نہ صرف پیشہ ورانہ مذہبی پیشواؤں کو بے نقاب کیا بلکہ مذہب بیزار طبقات کی حقیقت کو بھی عیاں کر دیا،روشن خیالوں کی فکر پر یہ کہہ کر کاری ضرب لگائی،کہ دنیا کا بے مقصد پیدا ہونا ،ظلم،جبر کا احتساب نہ ہونا ممکن ہی نہیں،اشرف المخلوقات کو بھلا شتر بے مہار چھوڑا جا سکتا ہے، یہ تو قادر مطلق کی بنائی ہوئی کائنات ہے جس کو اونگھ بھی نہیں آتی، فطری عدل پر مبنی کائنات کے نظام میں ظالم کو سزا نہ ملے یہ کیسے ممکن ہے؟ انھوں نے اس دور کے تمام فتنوں کا علمی میدان میں مقابلہ کیا،،آپ کے تدبر، فکر،وژن،معاملہ فہمی کودیکھ کر علامہ اقبال نے انھیں پٹھان کوٹ سے ہجرت کر کے لاہور آنے کی دعوت دی ۔
قیا م پاکستان کے بعد حضرت قائد اعظم نے صاحب علم شخصیت کو ”اسلامی نظریہ حیات “کے عنوان سے ریڈیو پاکستان پر خطبات دینے کو کہا،دنیا اس نابغہ روزگار شخصیت کو سید ابواعلیٰ مودودی کے نام سے جانتی ہے،جنہوں نے سب سے پہلے پولیٹیکل اسلام اور،اللہ کی زمین پر اس کے نظام کاتصور پیش کر کے تمام روایتی سیاسی نظاموں کی نفی کر دی برملا کہا کہ اسلام پوجا پاٹ کا مذہب نہیں ہے،کہ مساجد میں مقید کیا جائے،اس کوتو پارلیمنٹ،عدالت،بازار،تعلیمی ادارہ،مسجد،منڈی ہر جگہ نافذ ہونا ہے۔اس لئے جب جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تو یہ نعرہ دیا کہ قرآن وسنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جاؤ،بظاہر نعرہ لگانا تو کوئی بڑا کارنامہ نہیں تھا،لیکن سید مودودی نے اسلام کے
سیاسی ،سماجی،معاشی، معاشرتی،آئینی،اخلاقی ،قانونی،جہادی،عائلی،تعلیمی موضوعات پر اپنی کتب کی صورت میں عام فہم،سادہ زبان میں اتنا لٹریچر تیار کیا ہے کہ کسی بھی زمانہ،عہد،علاقہ ،ملک کا انسان اس سے استعفادہ کر سکتا ہے، نعرہ میں اس لئے دعوت کا لفظ استعمال کیا ہے،اس کی روشنی میں بتایا جائے کہ ریاست کا نظام کیسا ہونا چاہئے، شہریوں کے کیا حقوق ہوں گے،منڈی کا نظام کیسا ہونا لازم ہے کسی کا استحصال نہ ہو،کون سا نظام تعلیم تربیت کے اعتبار سے بہترین ہے،معاشی نظام سے عام شہری کی بنیادی ضروریات کیسے پوری کی جاسکتی ہیں۔دنیا میں روا ظلم اور جبر کا خاتمہ کیسے ممکن ہے،یہ سارا لٹریچر جماعت اسلامی کی ملکیت نہیں،دنیا کوئی بھی فرد اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے،یہی علمی ورثہ جماعت کو دیگر سیاسی جماعتوں سے ممتاز کرتا ہے۔
1949 میں جب جماعت اسلامی کی کوئی سیاسی حثیت نہ تھی عوامی طاقت سے قرارداد مقاصد منظور کرواکر اسکو آئین کا حصہ بناڈالا،اسکا مرکزی مفہوم یہ ہے کہ حاکمیت اللہ تعالی کی ہے، سربراہ مملکت کی حثیت اس کے نائب کی سی ہے اور ریاست میں کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا، پولیٹیکل اسلام کی یہی ایک جھلک ہے۔
سیدمودودی نے جماعت اسلامی کی بنیاد دستور پر رکھی،جس میں کسی فرد کا خود کو عہدہ کے لئے پیش کرنا، کنویسنگ کرنا جرم قرار پایا، تو جماعت موروثیت سے بچ گئی ہے،جماعت کی سماجی شعبہ میں خدمات تو روز روشن کی طرح عیاں ہیں،اس کی حب الوطنی پر کوئی انگلی نہیں اٹھاسکتا، مشرقی پاکستان کے لئے اسکی قربانیاں لازوال ہیں،جو فکر اسکو دیگر مذہبی حلقوں میں ممتازبناتی ہے وہ اسکا فرقہ واریت سے دور رہنا ہے،یہ ہمیشہ سے امت کے اتحاد کی داعی ہے، جماعت کی قیادت نے اپنے دامن کو لسانیت، برادری ازم کے فسادسے کبھی آلودہ نہیں ہونے دیا،گراس روٹ لیول تک اسکی تنظیم ہونا بھی اس کا ہی خاصہ ہے، ،طلباء،اساتذہ،کسانوں مزدوروں،وکلاء،صحافی برادری،خواتین کے حلقے اس کی افرادی قوت ہیں، اس کے مخالفین بھی اسکی تنظیم سازی پر رشک کرتے ہیں۔البتہ سیاسی حلقوں میں ایک سوال ضرور گردش کرتا ہے،کہ تمام تر خوبیوں کے باوجود سیاسی محاذ پر یہ ناکام کیوں ہے؟ اس کا جواب تو قیادت ہی دے سکتی ہے ۔
ہم عرض کئے دیتے ہیں۔سید مودوی کے خاکہ کے مطابق اسکو عملی شکل دینا لازم ہے ۔بینک ہوں،کاروبار ہو،تجارت یا منڈی ہو،اس میں مافیاز کا راج ہے،جماعت ایک باصلاحیت ،ایماندار افرادی قوت رکھتی ہے،خواتین کی بڑی تعداد انکی ہمدرد ہے، صاحب ثروت کی مدد سے نہ صرف عوام کو ان مافیاز سے نجات دلائی جاسکتی ہے بلکہ اپنے بہی خواہوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں،رئل اسٹیٹ میں تارکین وطن کے سرمایہ کو بھی منافع بخش اور محفوظ بنایا جا سکتا ہے،آئی ٹی کی تربیت کی وساطت سے خواتین کو فری لانسرز کے نام پر گھر میں ہی روزگار دینی ماحول میں فراہم کیا جاسکتا ہے،اگر ڈاکٹر یونس بنگلہ دیش میں ڈاکٹر امجد فرد واحد کے طور پر اخوت ادارہ قائم کر کے عام آدمی کی زندگی میں معاشی آسودگی لا سکتے ہیں تو اتنا بڑا نیٹ ورک رکھنے والی جماعت اسلامی ایساکیوں نہیں کرسکتی ؟مخیر حضرات سماجی خدمت کے لئے اعتماد کر سکتے ہیں تو انسوسٹر منافع کے لئے کیوں بھروسہ نہیں کریں گے، سیاست کو عبادت سمجھ کر جب بازار،منڈی،دوکان اور تجارت میں کھرے اور کھوٹے کی پہچان کروانے میں جماعت عوامی سطح پر کا میاب ہو جائے گی، تو برسر روزگار افراد اس کے ووٹر زہوں گے،خواتین اسکی مدد گار ہوں گی،یہ تبھی ممکن ہے جب اس سے وابستہ افراد خود کو اللہ کا نائب سمجھ کر معاشرہ کو ہمہ قسم کے مافیاز سے نجات دلواکر صاف ستھرا کاروبار، بغیر سود بینکنگ کانظام وضع کریں گے ، انسانی خدمت کا حصول ہی اللہ کی رضا ہے جس کے لئے جماعت اسلامی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.