قلم کی بے بسی

پیر 21 دسمبر 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

کہا جاتاہے کہ قلم اور زبان سے نکلے ہوئے الفاظ تاریخ کو جنم دیتے ہیں،کرہ ارض پر ان کی اہمیت مسلمہ ہے،قلم کی نوک سے لکھے گئے فیصلے نہ صرف تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں بلکہ جغرافیہ بھی تبدیل کر تے ہیں، روایت ہے کہ پہلا فونٹین پن فرانس میں ۱۹ وی صدی میں وجود میں آیا تھا اس کا امتیاز یہ تھا کہ روشنائی اس کے اندر ہی سموئی ہوتی تھی اس سے پہلے پن سے لکھنے کے لئے اسکوروشنائی میں ڈبو کر لکھنا پڑتا تھا،روشنائی بھی قبل مسیح سے لکھنے کے لئے مستعمل تھی اسے درختوں،جانور کے اجزاء اورمعدنیات سے بنایا جاتا تھا۔

بعد ازاں بال پوائنٹ، مارکر اورد یگر لکھنے والے انسٹرومنٹ جدت اختیار کر گئے فی زمانہ قلم کی جگہ اگرچہ کمپیوٹیر نے لی ہے پھر اسکی اہمیت دو چند ہے،قرآن حکیم میں بھی قلم کا تذکرہ پہلی وحی میں اس انداز میں ہوتا ہے” کہ جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا“ اللہ تعالی نے بھی قلم کی قسم کھائی ہے،تمام الہامی کتب اور صحیفے بھی تحریری شکل میں موجود تھے جسکی شہادت آخری کتاب دیتی ہے،دیدہ زیب خطاطی کے قرآنی نمونے دنیا میں آج بھی موجود ہیں،بلکہ معروف کمپنی نے تو بولتاقلم ایجاد کیا ہے کہ اس کی آواز سے قاری اپنا تلفظ درست کر سکتا ہے،ریاست مدینہ کی تکمیل کے بعد روم،ایران، مصر، شام ودیگر حکمرانوں کے نام لکھے گئے نبی آخرالزماں کے دعوتی خطوط تاریخ کا حصہ ہیں،فتح مکہ سے پہلے آخری پیغمبر اور یہود کے مابین طے پانے والا کلیدی معاہدہ صلح حدیبیہ بھی تحریرہواتھا، ان سب میں مشترک چیز یہ تھی کہ اس میں حرمت قلم کا خاص خیال رکھا گیا تھا، کسی کے ساتھ نہ تو ناانصافی روا رکھی گئی نہ ہی کوئی ظلم وستم کیا گیا، کسی کے ساتھ نہ دھوکہ ہوا نہ ہی کوئی زیادتی دیکھی گئی،اس لئے کہ قلم کے ذریعہ یہ اللہ تعالیٰ کی دعوت کا کام تھا،ہر بنی نے بھی حرمت قلم کا اہتمام کیا ،یہی ربوبیت کی منشاء ہے ۔

(جاری ہے)


انسان کی سماجی، روحانی، مذہبی، تہذیبی،اخلاقی،سیاسی تربیت میں قلم کو مرکزی حثیت حاصل ہے،تعلیم وتربیت کا اس کے بغیر تو تصور بھی ناممکن ہے،طب ہو یا ادب،تاریخ ہو یا جغرافیہ،ریاضی ہو کہ سائنس بھلا کون سا مضمون ایسا ہے جس کو تحریر کرنے میں اس کی ضرورت نہ ہو،غالب کے خطوط ہوں یا اقبال کا شکوہ جواب شکوہ اس کے بغیر کیسے رقم ہو سکتے تھے، ،آج کی دنیا ارسطو، افلاطون،سقراط ۔

کارل مارکس کے علوم سے ہی نابلد ہوتی اگر قلم وجود میں نہ آتا، البتہ قلم بیچارے کا قصور اتنا ہے کہ یہ بے زبان ہے،دانشور، قلم کار،ادیب،فلسفی، مصنف ،مورخ اس کو زبان دیتا ہے تب جاکر یہ اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے اپنی خفتہ صلاحیتوں کے اظہار کے لئے انسان اس کا ہی محتاج ہے، وہ لوگ قابل تحسین ہیں جو اسکی حرمت کا پاس رکھتے ہیں، اپنی خداداد قابلیت کو انسانی فلاح کے لئے وقف کرتے ہیں۔


 تاریخ ان سیاہ احکامات سے بھی بھری پڑی ہے جو حاکمین وقت نے اپنے ذاتی تسکین کے لئے شاہی فرمان کے ذریعہ جاری اور نافذ
کئے،جس سے نہ صرف جنگ وجدل کا بازار گرم ہوا بلکہ انسانیت سوز سلوک سے زمانہ لرز اٹھا،زندہ افراد گھوڑوں کے ٹاپوں تلے
 کچلے گئے،سرتن سے جدا کر دئے گئے،کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے،زندہ انسانوں پر میزائل داغے گئے،ان پر راکٹ برسائے گئے،گولہ بارود کی بارش بھی قلمی احکامات کے طفیل ہوتی رہی۔


جس خطہ میں ہمارا قیام ہے ،اس میں دو واقعات نے اس علاقہ کی نئی تاریخ رقم کی ہے، انکا خمیر بھی قلم ہی سے اٹھا تھا، ایک تو داوی مہران سے ایک مظلوم لڑکی کا حجاج بن یوسف کے نام تحریری خط اور اس کے نتیجہ میں محمد بن قاسم کی متاثرہ لڑکی مدد
 کے لئے آمد نیک شگون ثابت ہوتی ہے اور اہل سندھ کے لئے اسلام کے لئے دروازے کھلتے ہیں،یہ وادی ” باب اسلام “ بننے کاشرف حاصل کرتی ہے، دوسرا واقعہ ہندوہستان کی سرزمین پر اس وقت پیش آتا ہے جب مغلیہ خاندان کی حکومت آخری ہچکیاں لے رہی ہوتی ہے،ملکہ الزبتھ اپنے شاہی فرمان کے ذریعہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین کو کاروبار کو وسعت دینے کی اجازت دیتی ہے، کمپنی کے ارکان بحری جہاز کے ذریعہ ہندوستان پہنچ کر مختلف مقامات پر منظم انداز میں اپنی کاروباری سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں اور مسٹر تھامس بادشاہ جہانگیر کے دربار میں حاضر ہو کر ایک تحریری درخواست کی وساطت سے کاروباری رعایتیں حاصل کرنے کی استدعا کرتے ہیں جو نہ صرف انھیں مل جاتی ہیں بلکہ انھیں رہائش کے لئے بنگلہ بنانے کی آفر ہوتی ہے تو اس کے بعد صرف مغلوں کی حکومت ہی کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ غلامی کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتاہے، تجارت کے نام پر انگریز کو اپنے قدم جمانے کا موقع مل جاتا ہے،اس غلامی کے اثرات برصغیر میں آج بھی محسوس کے جا سکتے ہیں ،اس غلامی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں، وہ چند ایک ہی تھے جنہوں نے قلمی جہاد کے ذریعہ قلم کی حرمت کا پاس رکھا۔


قیام پاکستان کے بعد کلمہ حق لکھنے پر اگر کسی کو سزا ئے موت سنائی گئی تو وہ سید مودودی ہی تھے،روایت یہ ہے کہ جس قلم سے انھوں سے شہرہ آفاق قرآنی تفسیر تفھیم القرآن لکھی اسکو جماعت اسلامی کے اجتماع عام میں جب نیلام کیا گیا تو سیالکوٹ کی معروف کاروباری شخصیت پروفیسر امین جاوید مرحوم نے اسے لاکھوں روپئے میں خرید کیا تھا،قلم کے اعتبار ایک قابل ذکر واقعہ چوہدری ظہور الہی مرحوم سے منسوب ہے،جنرل ضیاء الحق مرحوم نے کابینہ کے جس اجلاس میں اور جس قلم سے بھٹو مرحوم کی پھانسی کی سزا کی توثیق کی تھی ،گجرات کے معروف سیاستدان نے جنرل ضیاء سے وہ قلم لے لیا تھا۔


 دنیا کی بدامنی کے پیچھے غیر منصفانہ اجتماعی فیصلے ہیں جو ارباب اختیار اپنے قلم سے کرتے ہیں، جس طرح زبان سے عدل ،مساوات، خیر خواہی،اخوت، محبت،بھائی چارہ کو فروغ دینے کا حکم ہے اسی طرح قلم کی حرمت کا پاس رکھنے کے لئے ان آفاقی اور اخلاقی اصولوں پر کاربند رہنا بھی ناگزیر ہے،ظلم، جبر، ناانصافی پر مبنی رقم کے لئے احکامات کئی انسانوں کی زندگیاں گل کرنے کا موجب بنتے ہے،اللہ کی آخری کتاب میں انسانی راہنمائی اور خدمت کی ہدایت حرمت قلم کی درخشاں مثال اہل قلم کے لئے مشعل راہ ہے۔وہ اہل قلم تاریخ میں گم ہو جاتے ہیں، جو اپنے فرسودہ نظریات قلم پر ٹھونس کر اسکی بے بسی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :