
تعلیمی اداروں کی اَپ گریڈیشن
جمعہ 26 فروری 2021

خالد محمود فیصل
(جاری ہے)
جن اداروں کی اپ گریڈیشن کا تذکرہ ہے وہ پنجاب کے ایلیمنٹری سکولز ہیں جن کو ہائی کا درجہ دیا گیا ہے،اگرچہ عوامی حلقوں نے اس قدم کی پذیرائی کی ہے،اور جن سیاسی شخصیات نے اِنکی اپ گریڈیشن میں” سہولت کار“ کا فریضہ انجام دیا ہے وہ پُھولے نہیں سماتے اور اس زُعم میں مبتلا ہیں کہ اس” تعلیمی خدمت “کے عوض انھیں آئندہ بھی ممبری ضرور ملے گی،لیکن جس اداروں کو شرف بخشا گیا ہے اس کے حصہ میں صرف نوٹیفکیشن ہی آیا ہے جس میں جعلی حروف میں لکھا ہے کہ اِسی سٹاف اور عمارت کے ساتھ اس اداروں کو اپ گریڈ سمجھا پڑھا ، لکھاجائے،اس کے بعد تو عوام کے ساتھ سکول سٹاف کے بھی طوطے اڑ گئے لیکن اس نوع کی سادگی کے آگے پر مارنے کی ان میں بھی ہمت نہیں تھی،سرکار کے پروانے سے انکار تو ”گناہ کبیرہ “خیال کیا جاتا ہے۔
مقام حیرت ہے کہ جس علمی درجہ کی بنیاد پر بچوں کے مستقبل کا فیصلہ ہوتا ہے ،اس میں بغیر سہولیات کے انھیں تعلیمی مدارج طے کر نے پر مجبور کرنا نجانے کس اخلاقی زمرہ میں آتا ہے؟یہ عنایت بطور خاص دیہاتی اداروں کے لئے ہے، جہاں پہلے ہی سائنس کی تعلیم کا بحران ہے،لیبارٹری ،متعلقہ ٹیچنگ سٹاف،عمارت کی عدم دستیابی کے بعد اگر طلبہ،والدین ،عوامی نمائندگان اِس اَپ گریڈیشن پر مطمئن ہیں تو بھلا ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
سکولز سیکٹر کے بعد اَب کالجز کی اَپ گریڈیشن کی طرف تعلیمی سفر کا آغاز ہو چکا ہے، اگرچہ ماضی میں اس” علت “کی کئی مثالیں موجود ہیں، بہت سے کالجز ،جامعات بننے کا شرف حاصل کر چکے ہیں،بہت سے تعلیمی ادارے مادیت کی دوڑ میں ایسے شریک ہوئے ہیں کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا کے مصداق اِن پر صادق آتے ہیں، آج کا پرنٹ میڈیا اسکی شہادت دیتا ہے،یہ دن بھی اِس زمانہ کو دیکھنا تھے اُردو کی وفاقی جامعہ میں معاشیات، بزنس کے مضامین کی تدریس جاری ہے، زبان کی ترویج کی جامعات میں بھی مصنوعی ذہانت کو اولیت دی جارہی ہے،انجینرنگ اور ٹیکنالوجی کی درس گاہوں میں کمپیوٹر اور ریاضی کے مضامین پڑھائے جارہے ہیں،اس ساری علمی اور عملی کاوش کے پیچھے وہ جذبہ ہے جس کا مقصد جامعات کو ”کماؤ پتر“ بنانا اور ریونیو اکٹھا
کرنا ہے تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔
اِسکی پاداش میں ملتان کی ایک اور قدیمی دانش گاہ اِن دنوں زیر عتاب ہے،اس سے قبل اِسی شہر مدنیة اولیاء اس طرح کی
ایک مادر علمی سے ساتھ کھلواڑ کیا گیا تھا،خواتین کالج کو بھی جامعہ کے طور پر اپ گریڈ کر دیا گیا تھا،جس طرح آج طلباء، اساتذہ سراپا احتجاج ہیں، باکل اسی طرح مذکورہ ادارہ کی طالبات بھی سڑکوں پر بینر اُٹھائے اَپنی درس گاہ کے حق میں آواز بلند کر رہی تھیں،طاقتور طبقہ کے آگے ان کا زُور تو نہ چل سکا لیکن والدین کے دبدبہ کے آگے بچیوں کو سرنڈر کر نا پڑا، قرائین بتاتے ہیں کہ یونیورسٹی کا درجہ پانے کے بعد والدین بھاری بھر فیسوں کا معاشی بوجھ نہ اٹھا سکے بتدریج طالبات کی تعداد کم ہوتی گئی، اس ناکام تجربہ کے بعد تو سنجیدہ اور تعلیمی حلقے اس نوع کی ” بدعت“ کو دہرانے کی توقع ارباب اختیار سے نہیں کر رہے تھے،لیکن نجانے کون سے نادیدہ ہاتھ ہیں جنکو ایمرسن پوسٹ گریجویٹ کالج کے طلباء کی کم فیسوں کے عوض حصول تعلیم گوارا نہیں ہے۔
اس سے قبل یہ کہا جاتا رہا کہ کالجز میں صرف درس وتدریس کا عمل جاری رہنا چاہیے جبکہ جامعات کو محض تحقیق کے لئے مختص کیا جائے، لیکن اب ہر کالج کو جامعہ کا درجہ دینے سے یوں دکھائی دیتا ہے کہ تحقیق کے لئے جامعات میں جگہ کم پڑ گئی ہے اس لئے ہنگامی طور پر کالجز کی اپ گریڈیشن مقصود ہے۔
اگر مقتدر طبقات کے پاس فرصت کے لمحات ہوں تو انھیں فیڈرل اور پنجاب سروس کمیشن کی سالانہ چشم کشُاء رپورٹ کو ضرور پڑھنا ہوگا جس میں یہ اعتراف رپورٹ کنندہ کی طرف سے موجود ہے کہ ہمارا تعلیمی اور علمی معیار کا سفر گراوٹ کی طرف ہے،اس سے قبل جب طلباء وطالبات گریجویشن کے بعد جامعات جاتے تھے تو اِنکی تعلیمی صلاحیت موجودہ جامعات کے طلباء سے کہیں زیادہ تھی اُس عہد کی مذکورہ اداروں کی رپورٹ بھی اسکی گواہ ہیں۔
اگر پالیسی سازوں کا مقصد ڈگریوں کی جامعات کی وساطت سے ترسیل اور تقسیم ہے تو انکا وژن ہو سکتا ہے، ایک قدیمی ادارہ کی حثیت کو ختم کرنے میں کس کا مفاد پنہاں ہے،اس عمل سے تعلیم کی کیا خدمت متوقع ہے؟ یہ سوال حل طلب ہے،تاہم اس کے حق میں دلائل دینے والوں کا کہنا ہے کہ اس شہر کی1981میں جو آبادی تھی اُس وقت بھی یہاں کالجز کی تعداد چھ تھی آج جبکہ اس میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے تو بھی کالجز کی تعداد وہی ہے، اگر کوئی نیا قائم ہوا بھی ہے تو وہ کسی ہاسٹل یا ہسپتال میں ہی بنایا گیا ہے ہمارا گمان تھا کہ اس شہر کے عوامی نمائیندگان ا س غفلت پر شرمندہ ہوں گے اور نئے ادارہ جات بنانے کا عہد کریں گے لیکن انھوں نے تو اپنی مادر علمی چھیننے پر کوئی مثبت رد عمل ہی نہیں دیا ہے، اس مادر علمی کا درجہ بڑھا کر اگر لسانیات، سماجی علوم، معاشیات، زراعت ہی پڑھانی ہے تو ہے یہ خدمت جنوبی کی تمام جامعات بخوبی انجام دے رہی ہیں۔
جنوبی پنجاب کے باشندوں کا فہم کیا ہری پور ہزارہ سے بھی کم ہے اگر وہاں تحقیق اور جدید کورسز کے لئے پاک اسٹریا انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بن سکتا ہے تو یہ خطہ اس طرح کے جدید اداروں کے لئے کیوں موزوں نہیں ؟اگر اس شہر میں کسی نئی جامعہ کا اضافہ ہی لاز م ہے تو نیا ادارہ اس شہر کا مقدر کیوں نہیں ہو سکتا، حضر اور سفر اس خطہ کے نوجوانان ہی کی قسمت میں کیوں لکھا ہے۔جنہیں اچھی تعلیم کی تلاش اور روزگار کے حصول کے لئے ہی رخت سفر باندھنا پڑتا ہے، سستی تعلیم ہر شہری کا حق ہے،ریاست اگر یہ فراہم نہیں کر سکتی تومہنگی تعلیم کے حصول پر طلباء و طالبات کومجبور تو نہ کرئے، تعلیمی اداروں کی ”سستی شہرت“ کی طرح اَپ گریڈیشن کس کی تسکین کے لئے کی جارہی ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خالد محمود فیصل کے کالمز
-
بدنما داغ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
داستان عزم
منگل 15 فروری 2022
-
پتھر کا دل
منگل 8 فروری 2022
-
آزمودہ اور ناکام نظام
پیر 31 جنوری 2022
-
برف کی قبریں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
ملازمین کی مالی مراعات
پیر 10 جنوری 2022
-
مفاداتی جمہوریت
پیر 3 جنوری 2022
-
سعودی حکام کی روشن خیالی
ہفتہ 25 دسمبر 2021
خالد محمود فیصل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.