تعلیمی اور معاشی ترقی

ہفتہ 20 مارچ 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

یونیسکو کے اعدادو شمار کے مطابق دنیا بھر میں پرائمری سکول کی عمر کے تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد بچے ابھی تک سکولوں سے باہر ہیں،جدید دنیا میں ایک بچے کی زندگی کے لئے مواقع کا انحصا ر اس بات پر نہیں کہ وہ سکول جاتا ہے بلکہ اس پر ہے کہ وہ کتنا سیکھ پاتا ہے،اس وقت بھی دنیا بھر میں غالب تعداد ان بچوں کی ہے جو کسی نہ کسی طرح سکول جاتے ہیں،تاہم ان میں صرف37 فیصد ایسے ہیں جو پڑھائی، لکھائی اور گنتی کی ابتدائی سطح کو حاصل کر پاتے ہیں،ان میں بھی محض چند ہی سیکھنے کے عمل کے بعد کسی اعلی درجہ تک پہنچ پاتے ہیں، جو کہ ایک قابل تشویش بات ہے۔


پاکستان میں پانچ سے پندرہ سال کی عمر تک کے بچوں کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق 55 سے65 ملین تک ہے لیکن جو بچے سکول جارہے ہیں انکی تعداد 35 سے 38 ملین ہے، کم وبیش دو کڑور بچے سکول سے باہر ہیں، جو بچے سکول سے باہر ہیں انکی بڑی تعداد جنوبی پنجاب کے اضلاع میں ہے ،جو مظفرگڑھ سے ڈیرہ غازی تک کے علاقہ جات میں پائے جاتے ہیں،اسکی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ پنجاب میں 54000 ہزار سکولز میں سے پرائمری سکولز چالیس ہزار ہیں، چودہ ہزار سکول مڈل اور ہائی ہیں، ابتدائی جماعت پاس کرنے کے بعد بچوں کے لئے ہائی سکول میں داخلہ کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں،بعض ایسے علاقہ جات بھی ہیں جہاں بیس، تیس سال سے کوئی نیا سکول قائم ہی نہیں ہوا ہے،جسکا فائدہ پرائیوئٹ سیکٹر نے بھی اٹھایا ہے،اور مختلف انواع کے تعلیمی ادارے وجود میں آچکے ہیں جو اب ایک بڑی تعلیمی مارکیٹ بن گئی ہے،البتہ جنوبی پنجاب میں بچیوں کے سکول سے باہر رہنے کی تعداد باقی اضلاع سے زیادہ ہے،پانچویں کلاس سے آگے بچیوں کو تعلیمی ادارہ میں نہیں بھیجا جاتا، اسکی ایک وجہ غربت اور ثقافتی کلچر بتایا جاتا ہے،سرکار نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے پنجاب ایجوکیشن فونڈیشن کے ماڈل میں پرائیویٹ سیکٹر کو تعلیمی وظائف کی صورت میں رقم دے کر سکول کی کمی کو پورا کر نے کی سعی تو کی ہے، لیکن اس پر بھی ماہرین تعلیم تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں،لیکن اس کاوش یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ جنوبی پنجاب کے مذکورہ اضلاع میں سکول جانے والے بچوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔

(جاری ہے)


قابل توجہ یہ کہ ان دوکڑور بچوں کو جو تعلیمی اداروں سے باہر ہیں اِنکو سکول میں لانے کے لئے اب بھی بڑی تعداد میں پرائمری نئے سکولز کے قیام کی اشد ضرورت ہے،نیز ہائی اور ایلیمنٹری سکولز کی تعداد میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے ورنہ حسب روایت بچے بچیاں ابتدائی کلاسز ہی سے تعلیم کو خیر آباد کہہ دیں گے۔
 اس وقت ارض پاک میں اعلی تعلیم یافتہ نواجوانان کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہے نئے تعلیمی اداروں کے قیام سے ایک تو
 انھیں روزگار میسر آسکے گا دوسرا وہ بچے جو تاحال مدرسوں سے باہر ہیں وہ بھی داخل مدرسہ ہوسکیں گے،اساتذہ، بیوروکریسی اور سیاست دان کے مصنف جاوید احمد ملک کے مطابق تعلیم کی ترقی ترویج کے لئے جو قرضہ عالمی فنانشل ایجنسی سے ملتا ہے وہ انتہائی کم مارک اپ پر دستیاب ہوتا ہے،اگر ہم دنیا میں ایک ذمہ دار قوم کے طور پر متعارف ہونے کے خواہاں ہیں تو اس کا واحد راستہ
 تعلیمی ترقی ہی ہے، سرکار کو تعلیم کے فروغ کے لئے قرض لے کر بھی نئے ادارے کا قیام عمل میں لانا پڑے تو بھی یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔


کسی بھی ملک کی معشیت اور صحت سے تعلیم کا تعلق ہے،اگر کروڑوں بچے سکول سے باہر رہیں گے تو وہ ملک کی باگ دوڑ کیسے سنبھال پائیں گے،اس کا نقصان یہ ہوگا کہ نیم خواندہ افراد کی تعداد ملک میں بڑھ جائے گی ،جس سے توہم پرستی جنم لے گی،لوگ غیر سائنسی انداز میں سوچیں گے،صحت مندانہ سرگرمیوں کا فقدان ہوگا ،تعلیم کا عمیق تعلق جمہوریت سے بھی ہے،ایک تعلیم یافتہ معاشرہ ہی ووٹ کا بہترین استعمال کر سکتا ہے،آپ جتنی کتابیں،اخبارات پڑھیں گے آپکی گفتگو اتنی بامعنی اور خیالات پاکیزہ ہوں گے یہ سب تعلیم کو فروغ دئیے بغیر ممکن ہی نہیں ہے،
کیونکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں تعلیم بہتر ہوئی ہے وہاں صحت کی صورت حال بھی کافی بہتر رہی ہے،خاص طور پر بچیوں کی تعلیم کی وجہ سے اِنکے صحت کے مسائل حل ہوئے ہیں۔

کتاب کے منصف کے بقول ماں، بچے کا تعلق ،ہائی جین کا شعور، ویکنسی نیشن، خاندانی منصوبہ بندی یہ تعلیم کی بدولت بچوں میں خود بخود آجاتی ہیں۔
فی زمانہ تعلیم کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کو بھی تعلیم کا حصہ بنانا لازم ہے،بعض ممالک میں اس کو خاص فوقیت دی جاتی ہے ہمارے ہاں ناقدین کا خیال ہے کہ اس سماج کو سب سے زیادہ نقصان ہی تعلیم یافتہ طبقہ نے پہنچایا ہے، اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا نظام تعلیم کردار سازی کو وہ اہمیت نہیں دیتا جو تعلیم کی بنیادی ضرورت ہے، یہ اسی کا فیض ہے کہ ہمارے تمام شعبہ ہائے زندگی میں قومی کی بجائے ذاتی مفادات غالب آچکے ہیں ، یہاں نہ تو قانون کی پاسداری کو لازم سمجھا جاتا ہے نہ ہی دوسروں کے عقائد کا خیال کیا جاتا ہے،تعلیم کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ جرائم کا بڑھنا اس بات کی دلیل ہے، کہ ہمارا نظام تعلیم ایک باصلاحیت، صاحب کرداد، اور باشعور فرد کی تکمیل میں ناکام نظر آتا ہے،تعلیم یافتہ افراد میں اجتماعی شعور کا بھی فقدان ہے جو اس بات کی عکاسی بھی ہے کہ نظام تعلیم نسل نو کو ایک مکمل قوم بنانے سے قاصر ہے ۔


ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ ترقی پذیراور یافتہ ممالک کے تعلیمی معیار میں تفاوت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں زیادہ تعداد میں اساتذہ فراہم ہی نہیں جاتے نہ ہی وسائل دیئے جاتے ہیں جو معیاری تعلیم کے لئے ناگزیر ہیں،ٹیچر کو بھی باآختیار نہیں بنایا جاتا، اساتذہ کی عدم مشاورت سے حکومت بڑی بڑی پالیساں لے آتی ہے جو زمینی حقائق سے کوسوں دور ہوتی ہیں۔


عالمی سطح پر انسانی ترقی ماپنے کا پیمانہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس ہے،جس کی روشنی میں معاشرہ کی تعلیم، صحت اور فی کس آمدنی دیکھی
 جاتی ہے، لاکھوں بچوں اور بچیوں کو مدارس سے باہر رکھ کر معاشی ترقی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعمیر نہ ہو سکے گا نجانے ارباب اختیار کی پہلی ترجیح شعبہ تعلیم کب ہوگی؟ جنوبی پنجاب کو دیگر علاقہ جات کے ہم پلہ لانے کا واحد راستہ اس خطہ میں بلا امتیاز تعلیمی ترقی کے لئے وسائل کی فراہمی اور نئے تعلیمی اداروں کا قیام ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :