مقامی حکومتوں کی بحالی

منگل 30 مارچ 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

معززعدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے نتیجہ میں اپنا فیصلہ دیتے ہوئے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو بحال کر دیا ہے،موجودہ حکومت نے اپنی آمد کے بعدانتخابی اصلاحات کے نام پر ان کو معطل کر دیا تھا،آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد زیادہ اختیارات صوبہ جات کے پاس ہیں ۔اس لئے صوبہ جات نے اس بابت قانون سازی بھی کی ہے،لیکن مقامی حکومت کو محض ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعہ منتخب نمائندگان کو گھر بھجوانے کا عمل قطعی درست نہیں تھا،اس غیر آئینی آرڈر کے خلاف عدالت کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔


ہماری ریاست ایک فیڈریشن ہے اس میں تین درجاتی حکومتی انتظام ہے۔مرکزی ، صوبائی اور پھر مقامی حکومتیں آتی ہیں ،اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو مقامی ہی حکومت عوام کی حکومت ہوتی ہے جس میں مقامی آبادی سے نمایندگان کا انتخاب ہوتا ہے،انھیں فیصلہ سازی کا بھی اختیار ہوتا ہے،لیکن ارض پاک میں یہ حکومتیں زیادہ تر زیر عتاب ہی رہی ہیں،ِانکی تاریخ قابل رشک نہیں رہی ہے، اِن حکومتوں کو وردی والے ستعمال کرتے رہے ہیں تو کبھی جمہوریت کا راگ آلاپنے والے اس پر سوار ہوکر سیاسی مفادات سمیٹتے رہے ہیں،وہ ممالک جہاں کسی نہ کسی شکل میں جمہوریت قائم ہے وہاں عوامی مسائل کو حل کرنے میں یہ اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔

(جاری ہے)

ایوب خان نے اِنکو اگر اپنی بقاء کے لئے استعمال کیا تو جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کی طوالت کے انکا سہارا لیا، بھٹو مرحوم نے انکو سیاسی سیڑھی کے طور پر سامنے رکھا، بعد کی جمہوری حکومتوں نے ان کے قیام کو لازم ہی نہ سمجھا اگر چاروناچار مقامی حکومت قائم کر بھی دی گئیں تو اِنکے بال وپر کاٹ دئے انھیں مکمل اختیارات سے محروم رکھا ترقیاقی فنڈز کی فراہمی بھی بڑی بے دلی سے کی جاتی رہی،پنجاب میں بحال نمایندگان کو اس لئے معطل کیاگیا تھا کہ ان کے بارے میں شبہ تھا کہ مقامی حکومت کی لیڈر شپ کا تعلق ماضی کی حکمران جماعت سے ہے،جب ہماری سوچ اتنی محدود ہو گی تو اس نوع کی منتخب حکومت سے عوامی مسائل کے حل کی توقع رکھنا ہی عبث ہے۔


 جنرل مشرف کا مقامی حکومت کے لئے بلدیاتی نظام جو” ڈیلولیشن پالان “کے نام سے متعارف کروایاگیا تھا، یہ مقامی حکومت میں دو کے بجائے تین درجاتی طرز حکومت تھا جس میں دیہی علاقہ جات میں ضلع، تحصیل اور یونین کونسل تھی جبکہ شہر میں مونسپل، میٹروپولیٹین، اور ٹاؤن کمیٹی تک اختیارات کی ترسیل تھی، اسکونہ صرف عوام میں خاصی پذیر ائی ملی بلکہ عوام کے بہت سے مسائل اِنکی دہلیز پر حل ہوئے، اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا گیا تھا، فنڈز بھی وافر مقدار میں ملے جسکی بدولت سماجی ترقی بھی دیکھنے کو ملی تھی،بیوروکریسی کو عوامی نمائندگان کے تحت کرنا ایک مشکل کام تھا تاہم اس کے مثبت اثرات عوامی سطح پر محسوس کئے گئے۔


اس کے بعد جب قومی سطح پر حکومت کی تبدیلی ہوئی تو اس پورے نظام کو ہی بلڈوز کر دیا گیا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسکی خامیوں پر سیر
 حاصل تحقیق ہوتی اِنکو دور کر کے اِسکو پھر سے نافذ کیا جاتا،وہ بھاری بھر سرمایہ جو اس ضمن میں خرچ ہوا وہ سب بے کار گیا محض اپنی تسکین کی خاطر اِسکو باہر اٹھا کر پھینکے سے کچھ حاصل نہ ہوا،اِسکی وجہ شائد یہ بھی تھی وہ اراکین اسمبلی جواس نظام سے نالاں تھے جن کو اپنی حثیت اس کی موجودگی میں کم لگتی تھی اِنھوں ہی نے اسکی بھر پور مخالفت کی تھی، کیونکہ اِن اراکین میں سے بہت سے یہ
تمنارکھتے تھے کہ انھیں ضلع ناظم یا تحصیل ناظم کاعہدہ مل جائے تو اِنکے وارے نیارے ہو جائیں،اپنی ممبری کے سامنے انھیں یہ منصب بڑا دکھائی دیتا تھا۔


وہ تمام ریاستیں جو فیڈرل طرز حکومت رکھتی ہیں ، یا جو یونیٹیری گورنمنٹ ہیں اِنکی اولین خواہش ہوتی ہے کہ وہ دیئے گئے فریم ورک کے تحت اختیارات کو نچلے مقام تک عوامی منتخب نمائیدگان کو منتقل کرکے عوام کی آسودگی کا اہتمام کریں، اختیارات کے چند ہاتھوں میں ارتکاز سے گورننس کبھی بھی بہتر نہیں ہوتی ہے،وہ ریاستیں جو جمہوری ترقی کی بابت شاندار ریکارڈ رکھتی ہیں وہاں تمام بنیادی مسائل مقامی حکومتیں ہی حل کرتی ہیں انھیں ریونیو جمع اور پیدا کرنے کے بھی اختیارات ہوتے ہیں نیز انھیں انتظامی اعتبار سے بھی خودمختیاری دی جاتی ہے، فیصلہ سازی میں بھی یہ آزاد ہوتی ہیں، مقامی حکومتوں کا دائرہ کار خاصی وسیع ہوتا ہے، پبلک پارکس، تعلیمی ادارے ،شفاخانے،سپورٹس اینڈ کلچر،زراعت ،ہاوسنگ اینڈ کیمونٹی،امن وامان، شاہرات ،سوشل ورک، ماحولیات وغیرہ کے وہ قابل ذکر شعبہ جات ہیں جن میں کلیدی کردار اِن حکومتوں اور اِنکے نمائندگان کا ہوتا ہے،اس مقصد کے لئے وہ وسائل بھی پیدا کرتے ہیں اور عوام کے مسائل بھی مقامی طور حل ہوتے ہیں کہیں بھی سرخ فیتہ نظر نہیں آتا ہے۔


ہمارے ہاں ان اداروں کی حثیت بڑی واجبی سی رہی ہے حالانکہ یہ محض سروس کی فراہمی کے ادارے ہی نہیں ہیں بلکہ سیاسی تربیت کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں،نچلی سطح سے جب کوئی ناظم خدمت انجام دیتے ہوئے قومی سطح پر پہنچ جاتا ہے تو اسکا سیاسی وژن اتنا ہی پختہ ہوجاتا ہے ، ان اداروں کی ترویج میں بڑی رکاوٹ خود ہماری سیاسی جماعتیں ہیں جنکا نیٹ ورک یونین کونسل کی سطح تک نہیں یا وہ اراکین اسمبلی ہیں جو ترقیاتی فنڈز کے لئے سیاست کرتے ہیں اور وہ افسر شاہی ہے جو تمام تر اختیارات اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتی ہے،جہاں یہ نظام پوری آب وتاب سے چمک رہا ہے وہاں کی افسر شاہی، اراکین پارلیمنٹ اس فکر سے آزاد ہیں انکی دلچسپی صرف قانون سازی میں ہے جس کی وساطت سے وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اپنی عوام کو دینے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔


مقامی حکومتوں کی عدم ترقی میں بڑی رکاوٹ مالی وسائل بھی ہیں، لیکن یہ عارضی ثابت ہو سکتے ہیں اگر اِن ادارں کے منتخب نمائندوں کو مکمل خود مختاری او ر فنانشل منیجمنٹ کی تربیت دی جائے انھیں مقامی طور وسائل پیدا کرنے کی ترغیب، تربیت اور آزادی دے دی جائے،ایک مسلم سوسائٹی میں عشر، زکوة کی وصولی سے غربت کے خاتمہ میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔

آئین کا آرٹیکل 32 اور 140 اے مقامی حکوتوں کی بارے میں راہنمائی کرتا ہے، لیکن لولے لنگڑے یہ ادارے عوامی مسائل حل کرنے میں اس لئے ناکام ہیں کہ انھیں کسی طور پر بھی انتظامی، مالی،اختیاراتی خود مختیاری نہیں دی جاتی، ہر حکومت اِنکے نمایندگان کو اپنے انگھوٹھے کے نیچے رکھنے کے آرزومند ہے،نتیجہً کے طور پر عوام کو اراکین پارلیمنٹ سے توقعات وابستہ رکھنا پڑتی ہیں، جن مشکلات کا ادراک مقامی فرد اور اسکا منتخب نمائندہ کر سکتا ہے وہ کبھی بھی مرکزی رکن کو ہو ہی نہیں سکتا،اپنی تنظیمی کمزوری کوچھپانے کے لئے ہر حکمران جماعت اپنی چھتری تلے ہی انکی سیاسی پرورش کو ناگزیر سمجھتی ہے،محض اِنکی بحالی پر ہی اکتفاء کافی نہیں انکو ہر اعتبار سے آزاد کرنا لازم ہے ورنہ نچلی سطح پر سماجی ترقی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا نہ ہی عوامی مسائل کا دیر پا حل ممکن ہوگا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :