عہدوپیماء

جمعرات 1 اپریل 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

موجودہ حکومت اپنی نصف آئینی مدت پوری کر چکی ہے عام شہری جس نے اس سرکار سے بے پناہ اُمیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ اس وقت مایوس دکھائی دے رہا ہے، جو غلغلہ اس کی آمد پر تھا اور جو خواب عوام کو دکھائے گئے تھے بتدریج ان سے پردہ اٹھتا جارہا ہے،توقع تو یہی کی جارہی تھی کہ اب کی بار طرز حکومت روایتی سا نہ ہو گا بلکہ انقلابی اقدامات اٹھا ئے جائیں گے،عوامی مسائل اسکی دہلیز پر حل ہوجائیں گے، پولیس کلچر یکسر تبدیل ہوگا، عدالتیں بھی انصاف کی فراہمی تاخیری حربے استعمال نہ کر سکیں گی،دفتری امور کے لئے عوام کو نہ تو رشوت دینے کی ضرورت پیش آئی گی ،نہ سرخ فیتہ انکے درمیان حائل ہو گا، شفاخانوں میں بلا امتیاز سب کو ادویات کی دستیابی یقینی بنائی جائے گی، نئے تعلیمی ادارے وجود میں آئیں گے، رشوت، بدعنوانی کامکمل خاتمہ ہوگا،ہر قومی ادارہ اپنی اپنی حدود میں کام کرنے میں آزاد ہوگا، قبضہ مافیاز کا ناطقہ بند کر دیا جائے گا، ہماری کرنسی کی قدروقیمت ہوگی، کشمیر کا ایشو عالمی سطح پر نہ صرف اجاگر ہوگا بلکہ ہر سفارتی محاذ پر ہم بھارت کو شکست فاش دے سکیں گے،سابقہ حکومتوں کی بیرونی قرض لینے کی روایت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا جائے گا،ریاستی ادارے غیر آئینی قدم اٹھانے سے قبل سو بار سوچیں گے،کسی کو دوسرے کے کام مداخلت کی اجازت نہ ہوگی، صوبہ جات کے درمیان ہم آہنگی ہو گی، ہر فیصلہ باہمی مشاروت سے ہوا کرے گا،آئی ایم ایف کو لال جھنڈی دکھا دی جائے گی خود انحصاری کی طرف پیش رفت کرنے کے لئے اپنے وسائل پر بھروسہ کیا جائے گا، قومی یگانگت کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کی طرف دست تعاون بڑھا یا جائے گا، کھیلوں کے فروغ کے لئے نئے کھیل کے میدان آباد کئے جائیں گے، معاشی ترقی کو اولیت دینے کے لئے سی ۔

(جاری ہے)

پیک کو خاص اہمیت دی جائے گی،چھوٹے صوبہ جات کے عوام کا احساس محرومی ختم کرنے کے لئے ان کو بھاری بھر فنڈز دئے جائیں گے، مدینہ کی ریاست کی عملی شکل کے لئے زکوة، عشر کا منظم نظام نافذ کیا جائے گا،بے روزگاروں کو بے روزگاری الاونس دینے کا اعلان ہو گا، قومی دولت لوٹنے والوں کا کڑا احتساب ہو گا،بیرون ملک سے بھی لوٹی ہوئی قومی دولت لا کر خزانہ میں جمع کروائی جائے گی، ہماری کابینہ صرف چند وزراء پر مشتمل ہوگی یہ وہ خواب تھے جو مجھ سمیت ہر شہری نے دیکھ رکھے تھے کیونکہ جو پارٹی اقتدار پر براجمان ہونے کے لئے پر تول رہی تھی اس نے ہی ایسے سنہانے سپنے اس عوام کو دکھا رکھے تھے، پارٹی سربراہ کے بیانات، وڈیوز، انٹرویو اس بات کے شاہد تھے، اس وقت زمینی حقائق اس سے بہت مختلف ہیں۔


ایک طرف عوام مہنگائی چکی میں پس رہی ہے، اس پر خود حکومتی حلقے پریشان ہیں لیکن ریلیف فراہم کرنے کی طرف کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی ہے،تعلیم یافتہ افراد کی خاطر خواہ تعداد کو بے روزگاری کا سامنا ہے جو انکے والدین کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہے، اس وقت بہت سے طبقات اپنے حقوق کے لئے سراپا احتجاج ہیں،احتساب کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ نوشتہ دیوار ہے، نجانے کتنا قومی سرمایہ اس بابت صرف کیا جا چکا ہے، براڈ شیٹ سکینڈل میں ملوث افراد کا کیا سٹیٹس ہے راوی اس پر خاموش ہے۔

عام شہری کے نزدیک تبدیلی یہ تھی کہ اسے اس پولیس کلچر سے نجات دی جاتی جسکا اسکو اب بھی سامنا ہے،جہاں اب بھی ٹاؤٹ مافیاز کا اب بھی راج ہے، وہی تفتیشی حربے ، گواہوں کے بیانات کاتذکرہ ،ریمانڈ کی چالبازیاں سب اسی طرح سے ہے عدالت سے وکلاء کی بھاری بھر فیس کی ادائیگی کے بغیر بروقت انصاف کی فراہمی ہی کو تبدیلی خیا ل کرتی ہے، دیوانی مقدمات میں اب بھی داد کے کیس کا فیصلہ پوتے ہی کو سننا پڑے گا، ذخیرہ اندوز اب پہلے سے زیادہ طاقتور ہیں وہ عدالتی، انتظامی خوف سے بھی آزاد ہیں ،اس سے بڑھ کر اور گواہی کیا ہوگی کہ اشیاء کے نرخ وہ خود مقرر کرتے ہیں۔

ایک عام خوانچہ فروش سرکار کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیتا ہے وہ اس تبدیلی کو جوتی کی نوک پر لکھتا ہے جس کا خواب اس قوم کو دکھایا گیا تھا،دوکاندار از خود اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں گاہک اس کی باز پرس اس لئے نہیں کر سکتا کہ اس کو کوئی ایسی گوورننس نظر نہیں آتی، جس میں کوئی قبضہ مافیا، ذخیرہ اندوز، ڈاکو، چور نشان عبرت بنا ہو، اگر ایسا ہے تو باعث اطمعینان ہے مگر ایسا ہر گز نہیں تو پھر کون سر پھرا گاہک کسی مافیاز سے ٹکر لے گا۔


 جہاں عالم پناہ کپتان خود ارشاد فرماتے ہوں کہ یہ ملک مافیاز کے قبضہ میں ہے، آدھی مدت گذارنے کے بعد موصوف کا یہ ارشاد کہ ہمارا سرکار چلانے کا تجربہ نہیں تھا کس قدر مضحکہ خیز ہے، آپ کے مداح آپکی ایمانداری کو ہی ہر معاملہ کا حل سمجھتے ہیں، لیکن ہر شہری کس قرب سے گذرہا ہے ، اس کا آپ اور آپ کی کابینہ کو قطعی اندازہ نہیں کیونکہ یہی وہی گنے چنے افراد ہیں جو ہر سرکار کے حواری رہے ہیں آج اگر قومی معشیت آخری سانسیں لے رہی ہے ، قبضہ مافیاز کا طوطی بول رہا ہے، قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ ہوتی رہی ہے، بدعنوانی کا دور دورہ رہا ہے تو کسی نہ کسی طرح آپکے دائیں بائیں افراد بھی اس کا حصہ رہے ہیں انھیں کی وجہ سے آج آپکو یہ اعتراف کرنا پڑا ہے کہ اس ریاست کا مافیا بڑا طاقتور ہے، یہ تو عوام کو آپکی آمد سے پہلے ہی معلوم تھا، جب آپ اس کو سہانے خواب دکھا رہے تھے تو عوام یہ سمجھتی تھی کہ آپکو اس کا پورا پورا ادراک ہے اور آپ نے اس پر قابو پانے کے لئے کوئی ”سٹریجی “بھی بنا رکھی ہوگی، جب عوام کی بھاری اکثریت آپکی پشت پر تھی تو آپکو ان پر انحصا ر کرنے کی کیا ضروت تھی، انکے نرغے میں آنے کی آپکی مجبوری کیا تھی؟ آپ کی اس غفلت کی بھاری قیمت اس عوام کو ادا کرنا پڑرہی ہے،اب بھی وقت ہے کہ آپ تھانہ کلچر کو تبدیل کر کے، عدلیہ میں انصاف کی بر وقت فراہمی کو یقینی بنا کر، میرٹ کے نفاذ کو لازم قرار دے کر تاریخ میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں ، آڑھائی سال کی مدت کسی بھی انقلابی قدم کے لئے کم نہیں ہوتی۔


 ایک لمحہ کے لئے پلٹ کر تو دیکھیں کہ آپ نے اس بیچاری جنتا سے کیا عہد و پیماء کے تھے اپنی وڈیوز کو دوبارہ سنئے ،اپنے خیالات کا جائزہ لیجیے، اپنے عزائم کو جانیں، کیا آپ اپنی ناقص طرز حکومت سے دھوکہ کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ؟کیا عوام کا یہی جرم ہے کہ اس نے آپ کے قول پر اعتماد کیا تھا اسکی اتنی بڑی سزا اِسکو تو نہ دیں جو ستر سا ل سے دھوکے ہی کھاتی رہی ہے، آپ نے تو اُمید دلا کر اسکے خواب کو توڑا ہے، آپ اِس مایوسی کو اُمید میں بدل سکتے ہیں بشرطیکہ آپ قومی اہمیت کے فیصلے آزادانہ کرنے کی اپنے اندر ہمت پیدا کر لیں،اس کے لئے اگر اپوزیشن کی مدد بھی درکار ہو تو دست تعاون بڑھانے میں کوئی حرج نہیں ۔یہی جمہوریت کا حسن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :