سعد رضوی کے نام!

بدھ 8 دسمبر 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

 ریاست کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کے مابین کم عرصہ میں اگر کسی جماعت کو بہت شرف قبولیت حاصل ہوا ہے تو وہ پنجاب میں جنم لینے والی ”تحریک لبیک “ ہے، مختصر مدت میں پارلیمینٹ میں برا جمان ہو جانا اِسی کا خاصہ ہے،اگر سیاسیات کی رو سے اِسکی بطور سیاسی جماعت تعریف کی جائے تو یہ اس پیمانے پر بھی پوری نہیں اترتی، اسکا کوئی طے شدہ ایجنڈا ہی نہیں ہے،اس کے ورکرز کا بھی کوئی ایسامثالی ریکارڈ نہیں جو الیکشن کمیشن کی ضرورت ہے ،اس کے فنڈز کا حساب کتاب بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح واجبی کا سا ہے، مگر اسکا سیاسی وزن دوسری مذہبی جماعتوں سے زیادہ معلوم ہوتا ہے ، جسکی ایک جھلک سابقہ دور میں فیض آباد دھرنے میں عوام دیکھ چکی ہے،اسکی باز گشت تو عدالتوں تک سنی گئی تھی۔


حالیہ تحریک اس کا نیا ایڈیشن دکھائی دیتا تھا ۔

(جاری ہے)

کس طرح اِس نے پنجاب کے دارلحکومت اور دیگر شہروں کو بند کر کے رکھ دیا،جوسرکار تحریک کی منفی سرگرمیوں کی بدولت اسے کالعدم دینے کے لئے پر تول رہی تھی، اس کی قیادت کو فورتھ شیڈول میں ڈالنے پر بضد تھی،اس نے ہی اپنے فیصلوں پر یو ٹرن لینے میں عافیت جانی، اگرچہ اس کا سبب وہ مذاکرات بنے جو تحریک کی قیادت اور علماء کرام کے مابین ہوئے، دونوں فریقین نے اپنے اپنے موقف میں نرمی پیدا کر کے درمیانی راہ نکالی، بدامنی کی فضا کے خاتمہ پر عوام نے بھی سکھ کا سانس لیا،کچھ لوگ اِس امن پسندی کے پیچھے وہی ہاتھ دیکھ رہے جس نے سابقہ دھرنے میں اِن کے والد محترم پر دست شفقت رکھا تھا، قائد تحریک نے پنجاب سے حکمران پارٹی کے لیڈر کی خصوصی بیٹھک ہی سے حوصلہ پا کر عام انتخابات میں شرکت کا عندیہ بھی دیا ہے۔


 حالیہ مارچ کے دوران ہنگاموں کی بدولت بعض انتہائی ناخوشگوار واقعات رونماء ہوئے جس پر سخت عوامی رد عمل تاحال جاری ہے، بالخصوص سیکورٹی فورسز کے افسران اور جوانوں کو جس طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے نتیجہ میں انکی ہلاکت ہوئی، عوامی حلقوں نے اس فعل کو سخت ناگواری کے ساتھ دیکھا ،سوشل میڈیا میں بھی شدید ردعمل آیا، عالمی پریس میں بھی ان بچوں کی وڈیوز سنائی گئیں جن کے والدین اس سانحہ میں بے گناہ جان بحق ہوئے، ان کا جرم صرف اِتنا تھا کہ وہ اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے تھے، عوامی نفرت انگیزرد عمل آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی ،کہ تحریک کی قیادت جس پاکیزہ ہستی کی ناموس کے لئے احتجاج کر رہی تھی ، اس کے کارکنان کا ہرعمل نبی آخرزمان کی تعلیمات کے قطعی برعکس تھا،پھر بے گناہ اور نہتے باوردی افراد پر انسانیت سوز سلوک کسی بھی اعتبار سے اخلاقی نہ تھا، تمام سنجیدہ حلقوں نے اس بربریت کی مذمت کی تھی۔


جس انداز میں قومی اور پرایئویٹ املاک جلائی جارہی تھیں، توڑ پھوڑ کی گئی تھی ، بلا امتیاز پتھراؤ یہ بتا رہا تھا ،کہ یہ افراد کسی منظم سیاسی جماعت کے ورکرز ہو ہی نہیں سکتے، یہ مذہبی جماعت کے نہیں کسی فاشسٹ گروہ کے ممبر دکھائی دے رہے تھے ۔جو اپنے ہی لوگوں
 سے انتقام لینے کے لئے بے تاب نظر آ رہے تھے۔یہ ہنگامی آرائی ظاہر کر رہی تھی کہ ورکرز ہر طرح کی تربیت سے عاری تھے
اس کے بانی مولانا خادم رضوی جب اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئے تو ان کا بیٹا پارٹی کی ڈرائیونگ سیٹ پر آن بیٹھا اگرچہ درینہ کارکن اور رضوی محترم کے ساتھی ہونے کے بدولت بعض اراکین قیادت سنبھالنے پر آمادہ تھے میڈیا میں اطلاعات بھی گردش کرتی رہیں، مگر انھیں قیادت کا حق نہیں ملا ،یہ بھی گویا باقی مذہبی جماعتوں کی مانند یہ بھی موروثی پارٹی ہی بن گئی جسکی قیادت بھی حادثاتی طور پر وجود میں آئی ہے۔


تحریک کے قائد کی اپنی کوئی سیاسی تربیت سرے سے نہیں، اس نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر سرکار کی وعدہ خلافی پر ایک احتجاج برپا کر ڈالا، اس غیر منظم رویہ اور بد امنی نے تحریک کو اپنے موقف سے ہٹنے پر مجبور کر دیا، اس کے کارکنان کو بڑی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، زیادہ تر کی رہائی کے باوجود وہ کارکن ابھی پابند سلاسل ہیں جو سنگین جرائم میں شریک اور فورتھ شیڈول میں شامل ہیں ۔


 سمجھ بوجھ رکھنے والی اور دور اندیش قیادت ایک بڑے مقصد کے لئے بھلایوں تحریک بپا کرتی ہے؟ پھر ایسی تحریک جو مذہب کی بنیاد پراپنا مطالبہ دنیا کے سامنے رکھ رہی ہو اسے تو اور بھی پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے، اس کے غلط اقدامات کا اثر تمام دینی و سیاسی جماعتوں پر پڑتا ہے، عالمی سطح پر جگ ہنسائی ہوتی اور اسلام کے حوالہ سے ایک منفی پیغام پوری دینا کو جاتا ہے۔


 اس سے مفر نہیں کہ نبی کی شان اقدس میں کوئی غلط حرف کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں جس گلوبل ولیج میں ہم زندہ ہیں اب اسکے تقاضے بھی نئے ہیں، اگر سیرت پاک کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ نے بدلتے ہوئے حالات اور زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اقدامات کئے ہیں کہ آج کا دانش ور طبقہ بھی ورطہ حیرت میں گم ہو جاتا ہے ،آپ کے ساتھیوں نے بھی جوش کی بجائے ہوش سے کام لے کر دینا کی بڑی طاقتوں کوشکست فاش دی تھی، اس میں ہر اس مذہبی طبقہ کے لئے بڑا سبق ہے جو فرط جذبات میں بہہ کر اپنے ہی خلاف ایف آئی آر درج کروا لیتا ہے۔


 کیا ہی اچھا ہوتااگر تحریک کے سربراہ احتجاج سے قبل ہی اس مذہبی قیادت کواعتماد میں لے لیتے ، جن سے بعد ازاں حکومتی فرمائش پرمذاکرات ہوئے تو نہ صرف قیمتی جانیں بچ جاتیں بلکہ قومی اور پر ائیویٹ پراپرٹی بھی محفوظ رہتی، پر امن احتجاج کی وساطت سے تحریک پوری دنیا تک اپنا پیغام پہنچانے کامیاب ہو سکتی تھی۔
عصر حاضر کے جدید ذرائع استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ ،او آئی سی تک ای میل، قرادداوں ،کنونشن، خطوط، دستخطی مہم کے ذریعہ عالمی اداروں کی توجہ مرکوز کروائی جاسکتی تھی، پھر پوری دینا میں فرانس کے سفارت خانوں کے سامنے پُر امن مارچ کرکے ناپاک جسارت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا جاسکتا تھا۔

اگر یہ راستہ اپنایا جاتا تو اُمت کا ہر فرد اِس میں شریک ہونے کو سعادت خیال کرتا۔
آج کے علوم مدارس کی تدریس سے بہت آگے نکل چکے ہیں، دنیا سید ابواعلیٰ مودودی ، ڈاکٹر حمید اللہ، حسن البناء ، ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر ذاکر نائیک، مولانا امین احسن اصلاحی جیسی نابغہ روزگار شخصیات سے متعارف ہے ، جن کی علمی اور تحقیقی کاوشوں اور بغیر تشدد کے لاکھوں انسانوں نے اِسلام قبول کیا ہے۔

نبی آخر زماں کی شان میں ناپاک جسارت کر نے والا کارٹونسٹ جس اذیت ناک طریقہ سے آگ میں جل کر اپنے انجام کو پہنچا اوراِسکو سارے عالم نے بھی دیکھا ہے،قدرت کی طرف سے اس واقعہ میں ایسے بد بختوں کے لئے بھی واضع نشانی تھی۔
دنیا کو سیرت سے روشناس کروانے کے لئے قائد تحریک علمی میدان میں اُتر کر اہل مغرب کو دعوت فکر دیں اور بالفعل یہ باور کروائیں کہ فی زمانہ بد امنی کی بڑی وجہ اسوہ حسنہ سے روگردانی ہے، مگر جب ہم خود ہی بدامنی کی دلدل میں اُتر کر اِسلام کی اَمن پسندی کی بات کریں گے تو اس کی حقانیت پر کون ایمان لائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :