آزمائش

پیر 23 مارچ 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

پورا عالم ایک سخت آزمائش سے گزر رہا ہے، ارض پاک میں بھی ہیجانی کیفیت ہے، دیگر ممالک میں بڑھتی ہلاکتیں نئی پریشانی سے دو چار کر رہی ہیں،افواہوں کا سلسلہ ھل من مزید کی سی کیفیت پیداکر رہا ہے،اس میں بڑارول سوشل میڈیا کا بھی ہے، اس وائرس سے بچنے کی احتیاط کے بارے آگاہی دینے کی کاوش میں ہر فرد اپنے اپنے انداز میں مصروف دکھائی دیتا ہے، پھونکھوں، تعویذ سے خاتمے کے دعویدار بھی ٹپک پڑے ہیں، تاہم چینی قوم اسکے عوام اس وائرس کے خاتمے کے لئے ایک رول ماڈل کی سی حثیت رکھتے ہیں،علماء کرام نے بھی سرکار کی جانب دست تعاون بڑھایا ہے لیکن کچھ عائمہ کرام کی طرف سے جمعہ کے اجتماعات میں باہم مصافعہ اور معانقہ نہ کرنے کو غلط رنگ دینے کی دانستہ کاوش مایوس کن ہے جس کا انکو ادراک ہونا چاہے تھا،عوام سے رجوع اللہ اور استغفار کی تلقین بھی کی جارہی ہے۔

(جاری ہے)

کسی بھی قدرتی آفت یا ناگہانی صورت حال سے اکیلی حکومت نبردآزماء نہیں ہو سکتی، ہر فرد کو ملت کے مقدر کا ستارہ بننا پڑے گا۔
کپتان جی کے عوامی خطاب میں حوصلہ سے زیادہ خوف تھا،ناقدین کے خیال میں قوم سے اظہار خیال میں انکی ناتجربہ کاری عیاں تھی، قوم تو بڑے وژن اور فیصلوں کی منتظر تھی اسمیں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر تفتان کے مقام پر زائرین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جاتا تو ہمارے ہاں حالات مختلف ہوتے۔


البتہ عوام ان مقبول سیاسی جماعتوں کے کارندوں کی تلاش میں گرداں ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ حکمرانی کو”انجوائے“ کیا ہے، قیاس کیا جاتا ہے اس نازک موقع پر انکی قیادت کو اراکین سمیت عوام کے درمیان ہونا چایئے تھا،اس کا حوصلہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ سماج کے پسماندہ طبقات کی داد رسی کے لئے متحرک ہونا وقت کا تقاضا تھا، سابق وزیر اعلی پنجاب نہ صرف اچھے منتظم سمجھے جاتے تھے بلکہ ڈینگی وائرس پر قابو پانے کی شہرت بھی رکھتے ہیں اپوزیشن لیڈر ہونے کے ناطے انکی عدم موجودگی کو محسوس کیا جا رہا تھا انھوں نے بھی اچانک انٹری ڈال کر”شہیدوں“ میں نام لکھوانے کو ضروری خیال کیا ہے،ہمارا گمان ہے کہ وہ سیاست سے زیادہ سرکار کی راہنمائی کریں گے، تاہم سندہ حکومت نے اچھی گورننس سے ماضی کی کوتاہیوں کا ”کفارہ “ادا کر کے شہریوں کو انپی موجودگی کا احساس ضرور دلایا ہے ، کپتان کے علاوہ سب نے شاہ جی کی کارکردگی کو سراہا ہے، یہ ان کا اپنا ظرف ہے ۔


اس وقت وہ جماعت اپنی پوری ٹیم کے ساتھ میدان میں مکمل شریک عمل ہے جس کو انتخاب میں ناکامی کا طعنہ ہمیشہ دیا جاتا ہے، ماضی کی طرح مملکت خداد اور اسکی رعایا کی فکر مندی میں جماعت اسلامی نے سیاست کرنے کی بجائے عوامی تحفظ کو اولیت دی ہے، امیر جماعت ،سراج الحق نہ صرف خود عوام کے مابین پائے جاتے ہیں بلکہ انھوں نے اپنی ذیلی تنظیم” الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان“ کو اس ناسور کے خلاف لڑنے اور عوام کو آگاہی دینے کا حکم صادر فرمایا ہے، الخدمت کے ہسپتال اور اس میں موجود سہولیات کو عوام کے لئے کھول کر سرکار کے حوالہ کئے ہیں،الخدمت کے کارکنان تمام خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محدود وسائل کے باوجود عملی طور پر میدان میں نکل کھڑے ہوئے، مساجد کی صفائی سے لے کر مریضوں کی دیکھ بھال ، اور متاثرہ غریب خاندانوں تک کھانا پہنچانے تک انکی سرگرمیاں سوشل میڈیا پے آگاہی کے لئے وائرل ہیں،پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹرز بھی انکی معاونت میں شانہ بشانہ ہیں تاکہ افراد تک درست معلومات اور طریقہ علاج بروقت پہنچ سکے۔

بغیر معاوضہ کے اس وائرس کے مفت ٹسٹ” الخدمت “کی طرف سے متاثرین کے لئے بڑا ریلیف ہے، جو قابل تحسین ہے۔
سوشل میڈیا پر کنفوزن کی ایک وجہ یہ بھی ہے سرکار کے مختلف ترجمان اس صورت حال کی اپنی اپنی تشریح کر رہے ہیں، ان میں سے بعض قرضوں کی معافی، مالی امداد کو سرکار کی اہم کامیابی سمجھ رہے ہیں، اس جرثومہ سے لڑنے کی تدبیر کی بابت صدر مملکت، وزیر خارجہ کا دورہ چین بروقت ہوا ہے۔

عمومی رائے یہ ہے ابتدائی طور پر بروقت فیصلے نہ ہونے سے اس افتاد کا شدید سامنا ہے،سرکار نے تعلیمی اداروں کی بندش کا تو درست فیصلہ کیا ہے، لیکن کچھ معاملات اب بھی توجہ طلب ہیں، ریستوران،ہوٹل تو بند کر دیئے گئے لیکن خوانچہ فروش جو ناشتہ کے لئے معروف ہیں ،شام کے اوقات میں باربی کیو فروخت کرتے ہیں وہ گاہکوں کو روایتی انداز ہی میں ڈیل کر رہے ہیں،اسی طرح کا ماحول سبزی ، کبوتر،غلہ منڈی میں بھی ہے وہاں احتیاط نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے، مدینتہ اولیاء میں مذکورہ مقامات پر لوگوں کی بھیڑ اور آمدورفت حسب منشاء جاری ہے، انکی بڑی تعداد نا خواندہ افراد پر مشتمل ہے، موت کا یقین تدبیر سے زیادہ تقدیر پر رکھنے والے یہ دہاڑی دار طبقہ ہی لاک ڈاون کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے ،مقامی انتظامیہ کی جانب سے اجتماعی طور پر عوامی مقامات پر خاص محلول سے انکے ہاتھ دلوانے کا بھی کوئی اہتمام نہیں ہے، قصبات میں بھی یہی صورت حال ہے، دودھ سپلائی کرنے والے گوالے کثیر تعداد میں دیہات سے شہر داخل ہو رہے ہیں، یوں دو طرح کی آبادی میں ان کا آنا جانا ہے یہ بھی اس غیر معمولی حالات سے نا واقف ہیں اور خاص احتیاط سے عاری بھی ہیں، خدشہ ہے انکی لا پرواہی سے دیہی آبادی ہی نہ متاثر ہو، اسی طرح گلی، محلہ میں اشیاء فروخت کرنیوالے خوانچہ فروش بھی معمول کے مطابق اپنے انداز میں بداحتیاطی کے ساتھ کام کرنے میں مگن ہیں،خواتین، بچوں سے اشیاء کے لین دین میں اس طرح رابطہ بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔


تعلیمی اداروں میں تعطیلات کرنے کا مقصد تو اس وباء سے بچوں کو بچانا ہے لیکن مشاہدہ میں آیا ہے کہ بچے اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور بازار، گلی اور میدان میں بغیر کسی احتیاط کے کھیل میں مصروف ہیں،انکی لاپرواہی کے اصل ذمہ دار تو والدین ہیں، میڈیا کی وساطت سے انھیں بھی آگاہی دینا لازم ہے۔
ہر چندشاید ہی کوئی مسجد ہو جس میں صفائی نصف ایمان کی گردان عائمہ کرام کی طرف سے نہ کی جاتی ہو مگر اسکی اتنی ہی نفی مساجد میں کی اور دیکھی جاتی ہے، ہمارے دیگر عوامی مقامات ناقص صفائی کے اعتبار بھی خاصی ”شہرت“ رکھتے ہیں، ان پر صفائی کا عملہ بھی مامور ہوتا ہے مگر حالات بڑے درگوں ہوتے ہیں،اس طرح کی ناگہانی صورت میں اسکا نوٹس ہنگامی بنیاد پر لیا جاتا ہے ، گندگی ہی تو بیماریوں کی بڑی وجہ ہے۔


 بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے ملک کو لاک ڈاون کرنیکی تجویز دی جا رہی ہے ان حالات میں تازہ روٹی کمانے والا طبقہ کے سب سے زیادہ متاثر ہونیکا امکان ہے مخیر اور صاحب ثروت طبقہ، شوبز کی دنیا، کھیلاڑیوں پر اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انکی مالی امداد کے
 لئے مذکورہ سماجی تنظیم کی وساطت سے ان گھروں تک راشن فراہم کرنے کا فریضہ انجام دے تا کہ کوئی نئی مشکل جنم نہ لے سکے،اس آزمائش سے نکلنے کے لئے ہر فرد کو اپنی اپنی سطح پر کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :