اپوزیشن کی تحریک

منگل 18 اگست 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

توقع کی جارہی تھی کہ عید کے اپوزیشن آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کو یقینی بنائے گی اور سرکار خلاف تحریک کا آغاز کرے گی جسکا عندیہ دیا گیا تھا،ابھی تک اپوزیشن ایک پیج پر ہی نظر نہیں آتی،ہر پارٹی کا قائد دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے،مولانا شکوہ کناں ہیں کہ جب انکو دھرنے کے موقع پر بڑی جماعتوں کی حمایت ضرورت تھی تو وہ ان کے ساتھ ہاتھ کرگئے اور انکے ہاتھ کچھ بھی نہ آسکا،مولانا کو جو برتری دیگر جماعتوں کی قیادت کے مقابلہ میں حاصل ہے وہ انکا نیب زدہ نہ ہونا ہے،مولانا سمجھتے ہیں کہ دونوں بڑی پارٹیاں مجوزہ کانفرنس کا سہارا لینے کے لئے ان کے سہارے کی آرزو مند ہیں تاکہ سرکار کو دباؤ میں لا کر زیر سماعت مقدمات پر ریلیف لے سکیں،اپوزیشن جماعتوں کی کانفرنس کا انعقاد کب ممکن ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا،لیکن عوام سرکارکے ساتھ ساتھ اپوزیشن سے بھی خوش نہیں،مہنگائی، گرانی کے اس دور میں اس نے بھی ” بیچاری عوام“ کی خبر نہیں لی ہے،عمومی تاثر ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں اپنی اپنی بدعنوانی کے تحفظ کے لئے سرگرم ہیں، بحران سے نکالنے کے لئے کوئی پروگرام ان کے پاس نہیں،پیپلز پارٹی کی قیادت توحکومت کو عوام کا نہیں اداروں کا نمائندہ سمجھ رہی ہے،اپوزیشن کے حلقوں میں مڈٹرم انتخاب کی باز گشت بھی سنائی دے رہی ہے ۔

(جاری ہے)


یک لمحہ کے لئے یہ تصور کر ہی لیا جائے، حالات اس مقام پر آپہنچتے ہیں ،کہ قومی الیکشن کا انعقاد لازم ہوجاتا ہے ،تو اپوزیشن نے کیا ہوم ورک کر رکھا ہے اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آئیندہ الیکشن پر انگلی نہ اٹھائی جائے گی؟ پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخاب کا مرحلہ قریب ہے،اس سے قبل انتخابی اصلاحات کا ہونا لازم نہیں؟تا کہ الیکشن پر کوئی اعتراض ہی نہ کر سکے،گذشتہ الیکشن پر بھاری بھر تحفظات پائے جاتے ہیں، مینڈیٹ چرانے کے الزامات کا تذکرہ پارلیمینٹ میں ہوتا رہا ہے۔

کیا اس کے اثرات قومی اور عالمی سطح پر مرتب نہیں ہوتے ؟بدعنوانی کی داستانیں بیرونی سرمایہ کاری میں بڑی رکاوٹ بنتی ہیں، ہروہ قیادت جو چور دروازے سے آتی ہے وہ قومی مسائل حل کرنے میں اکثر ناکام رہتی ہے،اس میں وہ اعتماد ہی نہیں ہوتا ،آمرانہ ادوار اس کا بڑا ثبوت ہیں۔
ہمارا ملک جمہوری ہے اور اس میں ہی اس کی بقاء ہے، پارلیمانی نظام فیڈریشن کے اتحاد کی ضمانت ہے،اس کا راستہ پر امن شفاف، منصفانہ انتخاب ہی سے ہو کر گذرتا ہے،اس گلوبل ویلج میں آپ ایک سے زائد بار آر ٹی ایس سسٹم کی ناکامی کے نام پر دنیا کو بے قوف نہیں بنا سکتے۔


 ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں دنیا کے سب سے بڑے انتخابات ہوتے ہیں۔29 ریاستوں میں 543 نشتوں کے لئے چناؤ کیا جاتا ہے،ہر چند الیکشن کمیشن میں 2345 سیاسی پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں مگر فعال صرف پانچ سو سے زائد ہیں، انڈیا کے سابقہ انتخاب میں چیف الیکشن کمشنر کے فرائض ایک مسلم مسٹر شہاب الدین نے انجام دئیے، اس کے باوجود ہندو سماج میں انتخابی دھاندلی کی کوئی آواز سنائی نہ دی،وہاں الیکشن کمیشن، مالی،انتظامی اختیارات کے اعتبار سے مکمل بااختیار ہوتا ہے،قومی سطح کا کوئی ادارہ حتیٰ کہ صدر، وزیر اعظم بھی مداخلت نہیں کر سکتا،حالانکہ الیکشن کی سرگرمی ایک ماہ کے عرصہ تک محیط ہوتی ہے،کہا جاتا ہے کہ2009 کے الیکشن میں گجرات کے دور دراز علاقہ میں ایک ووٹر کے لئے بھی پولنگ اسٹیشن بنایا گیا تھا، انتخابی عملہ کو بعض اوقات پولنگ اسٹیشن تک پہنچنے کے لئے ہاتھی پر بھی سفر کرنا پڑتا
 ہے، انڈیا الیکشن کمشنر قومی امانت سمجھ کر یہ فریضہ بآحسن خوبی ادا کرتا ہے، اس لئے اسکودنیا کی بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے،اس سے مفر نہیں کہ مافیاز کی بڑی تعداد اس ریاست میں بھی موجود ہے مگر اس کو بھی انتخابی نتائج میں مداخلت کی جرات نہیں ہوتی،شفاف انتخاب کی کوکھ ہی سے مضبوط قومی ادارے جنم لیتے ہیں،عالمی اہمیت کے فیصلہ جات کو پذیرائی ملتی ہے۔

سیاسی استحکام پیدا ہوتا ہے۔
ہماراالیکشن کمیشن 73 سالوں میں بھی عام آدمی کے اعتماد پر پورا نہ اتر سکا،ہر انتخاب کے بعد دھاندلی کی بازگشت سے سوالات جنم لیتے رہے،حتیٰ کہ بعض انتخابی نتائج نے مارشل لاء کی راہ ہموار کی ہے،بڑے جید سیاستدان بھی مخالفین کو راستے سے ہٹاکر بلا مقابلہ منتخب ہونے کے خبط میں مبتلا پائے گئے،کبھی سیکورٹی کے نام پر، بعض اوقات عالمی حالات کو بنیاد کرانتخابی بساط اپنی مرضی کی بچھائی جاتی رہی،یہ وقت بھی آیا کہ ایٹمی اثاثہ جات کے تحفظ کو انتخابات سے نتھی کر دیا گیا،اور وہی سیاسی گھوڑے میدان میں اتارے گئے جو مطلوب تھے۔

جمہوری ریاست میں انتخابات یکسر ایک سیاسی عمل ہے،یہ عوام کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی پسند کی جماعت کے افرادکا انتخاب بلا شرکت غیرے کر سکیں یہاں ہر آمر نے اپنی مرضی کی سیاسی جماعت تخلیق کر کے اس کے دامن میں پناہ لی ہے، اس کا نقصان یہ ہوا،عالمی طاقتیں انھیں سیاسی قیادتوں سے زیادہ بااثر سمجھنے لگیں، سیاسی قیادتوں کو شدت سے اس کا احساس ہو رہا ہے مگر انکے پاؤں اب بدعنوانی کی زنجیر سے بندھے ہیں، اگر سیاسی قیادتیں اپنے زروبازو پر اعتماد کرتیں،عوامی حمایت سے سیاسی سفر کا آغاز ہوتا،موورثی کلچر کو اپنی ضرورت نہ سمجھا جاتاتو آج حالات بہت ہی مختلف ہوتے،بڑی جماعتوں نے باہم” میثاق جمہوریت“ بھی کیے مگر یہ بھی کارگر ثابت نہ ہوئے۔

کسی کے کندھے پر سوار اراکین پارلیمنٹ میں جب دفاع،خارجہ ،داخلہ پالیسی پر ربر سٹمپ بن جاتے ہیں تو عوام مایوس اور شکوہ کناں ہوتے ہیں کہ عوامی نمائندگان ان کے ا عتماد کا خون کررہے ہیں،اس وقت سوائے تاسف کے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ عصرحاضر بھی کچھ ایسا ہی منظر پیش کر رہا ہے۔
ہر چند سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن میں تجاویز کے انبار لگا دئیے ،لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ عام شہری الیکشن میں بطور امیدوار شریک ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے اب یہ امراء کا پراگندہ کھیل بن چکا ہے،مراعات یافتہ طبقہ اپنے ہم پلہ گروہ کے لیے سہولت کار کا فریضہ انجام دے رہا ہے، اس لئے عام آدمی کا انتخابی عمل ہی سے اعتماد اٹھ رہا ہے،سابقہ انتخاب میں ووٹرز نے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا،مگر نتیجہ وہی ڈھاگ کے تین پات نکلا۔

سیاسی عمل میں غیر شفافیت نے سرکار کو بھی یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ مافیاز اس سے زیادہ طاقتور ہیں۔
گذشتہ دنوں نجی ٹی وی کے پروگرام میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے برملا کہا کہ تمام جماعتوں کو صاف شفاف اور غیر جانبدار انتخابی عمل کے لئے مل بیٹھ کر لا ئحہ عمل طے کرنا پڑے گا،آئین،اور قانون کی بالادستی بھی اسی سے عبارت ہے۔
 ذاتی مفاد کی خاطر اپوزیشن کو غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار نہیں بننا چاہئے البتہ قوم کے وسیع تر مفاد میں پارلیمنٹ میں اپنا مثبت اور بھرپور کرداراد کرنا لازم ہے۔

تاہم پارلیمانی مدت کے بعد شفاف،منصفانہ انتخاب اور طاقتور الیکشن کمیشن کے قیام کے لئے قومی سیاسی قیادت کا ابھی سے مل بیٹھنا وقت کا تقاضا ہے،اپوزیشن کو اس ایشو پر تو پذیرائی مل سکتی ہے تاہم عوامی حمایت سے سرکار کے خلاف احتجاجی تحریک دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :