مذاکرات کی دعوت

اتوار 22 نومبر 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہماری ریاست کا شمار ان خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جہاں قلیل عرصہ میں ماسوائے بادشاہت کے ہر طرز حکومت ہی راج کر تا رہا، لیکن سارے عمل میں اگر کوئی باہر رہا تو وہ عوام ہی رہی، باجود اس کے پارلیمنٹ کی پیشانی اور قانونی دستاویز آئین پر” جمہوریہ“ کا لفظ جلی حروف میں رقم ہے،قیام پاکستان سے سیاسی ابتری کے عہد تک شب خون مارنے والوں نے اپنی حکومت کے قیام کو عوام ہی کا وسیع تر مفاد گردانا تھا،ابھی پہلا دستور مکمل نافذالعمل نہ ہوا تھا کہ پہلے آمر اپنے وجدان سے اخذ کرتے پائے گئے کہ موجودہ آئین عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے لہذا نیا آئین وقت کی اہم ضرورت ہے، حالات کا جبر تھا یا قوم کی قسمت کہ نئے دستور کے قیام کی سعادت بھی موصوف کے حصہ میں آئی یوں ہم جمہوری ممالک میں سے یہ امتیاز حاصل کرنے میں کامیاب رہے کہ ہمارا دوسرا آئین ایک باوردی شخصیت کے ہاتھوں تشکیل پایا، موصوف پارلیمانی طرز حکومت سے نالاں ،صدارتی نظام کے رسیا نظر آئے تونئے آئین کی بنیاد بھی انھیں خطوط پر رکھی، جس میں اختیارات کا گھنٹہ گھر ان کی ذات کے گرد گھومتا تھا، ان کے دیگر سنہری کارناموں میں بانی پاکستان کی محترمہ ہمشیرہ کیلئے بھونڈے انداز میں انتخابی شکست کا اہتمام کرنا بھی شامل تھا، اس دھاندلی کی کوکھ سے آج بھی اسکے بچے جنم لے رہے ہیں،موصوف کی کامیابی سے زیادہ صدمہ دل پے محترمہ کی شکست کا تواہل بنگال نے لیا ،جسکا نتیجہ انتقال بنگلہ دیش کی صورت میں نکلا، ڈنڈہ بردار فورس کے ذریعہ متحدہ پاکستان کے حامیوں کو پولنگ اسٹیشن تک پہنچنے میں رکاوٹ کے باوجود ستر کے الیکشن کو نجانے کیوں مشرقی پاکستان کا شفاف انتخاب کہا جاتا ہے؟اب تو سوائے تاسف کے کوئی مداوہ ہی نہیں۔

(جاری ہے)


حالات سے مایوس قوم کو ایک بار پھر جمہوریت کی کرن سے روشنی کی امید دکھائی گئی لیکن جلد ہی یہ شمع بھی دھاندلی کے ہاتھوں بجنے لگی، عوامی قائد کے انتخابات پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہ تھا، اقتدار کی ہوس اور خود نمائی نے ایک نئی آمرانہ حکومت کی راہ ہموار کی،اس کے روح رواں ایسی سیاسی پنیری لگانے میں کامیاب ہو گئے جو اس وقت تناور درخت کا روپ دھار چکی ہے، جمہوریت کو سایہ فراہم کرنے کی بجائے یہ جمہوری پودے کو اکھاڑ پھینکے کے در پے ہے،انتخابی عمل میں الزام تراشی کاجو سلسلہ اسی کی دہائی سے شروع ہوا تھا تاحال جاری و ساری ہے، حالیہ گلگت بلتستان کے الیکشن میں پھر سے اسکی باز گشت سنی گئی، فرق صرف اتنا تھا کہ دو بڑی جماعتیں جو پہلے ایک دوسر کے خلاف انتخابی عمل چرانے کا الزام لگاتی تھیں اب انکی توپوں کا رخ سرکار کی طرف ہے، گویا ارض پاک کی سلور جوبلی کی مدت کے بعد بھی ہمارا انتخابی سفر اداروں کی مداخلت سے کر ووٹ چرانے تک کے الزامات کی زد میں ہے،اس طویل عرصہ میں بمشکل ایک آدھ جمہوری حکومت ہی کو اپنی پارلیمانی مدت پوری کر نے کا شرف حاصل ہوا ہے،ورنہ وزراء اعظم مکھن کے بال کی طرح اقتدار سے نکال باہر کئے جاتے رہے ہیں۔


 فروغ جمہوریت کے لئے ہم نے ایمپورٹڈ وزراء اعظم کا تجربہ بھی کر کے دیکھ لیا وہ بھی ناکامی سے دوچار ہوا۔نگران سربراہ عوام کی بجائے عالمی اداروں کی فلاح میں اس لئے مصروف نظر آئے کہ انھیں بڑی طاقتوں کے ارباب اختیار کی آشیر باد حاصل تھی،اتنی صفائی سے وہ ذاتی مفادات سمیٹ کر رخصت ہوئے کہ احتساب کا ادارہ بھی ان کے سامنے بے بس نظر آیا۔


اپوزیشن کی تحریک کے آفٹر شاکس سرکاری حلقوں میں بہر حال محسوس کئے جارہے ہیں،ہمارے کپتان جی تاحال اپنے موقف پر جم ہوئے ہیں، یہ الگ بات کہ اپوزیشن کے روح رواں کسی دوسرے سے” ریلیف “لینے کی تگ و دو میں ہیں، اسی میں انکی راحت اور عافیت بھی ہے۔البتہ بطور سربراہ حکومت وزیر اعظم نے اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت ضرور دی ہے، ایسے مذاکرات کا کوئی بھی راستہ این آر او کی طرف نہیں جاتا ہے ۔


یہ سنجیدہ موضوع ہے تمام فریقین کو اس پر قومی فکر کے ساتھ شریک ہونا چاہئے اس خطہ میں بھارت کے انتخابات پر انگلی اٹھائی جاتی ہے نہ ہی بنگلہ دیش کی اپوزیشن دھاندلی کا رونا روتی ہے، یہ فعل ہماری سیاسی جماعتوں ہی کا مقدر ہے ۔مذکورہ ممالک کاانتخابی عمل اتنا شفاف صرف اس لئے ہے کہ وہاں الیکشن کمیشن ہر اعتبار سے آزاد اور خود مختیار ہے،اس کو کس بھی قسم کی الزام تراشی کا سامنا نہیں ہوتا، سوشل میڈیا اور گلوبل ولیج کے اس عہد میں کب تلک ہم دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں گے،جلد یا بدیر ہم کو آزادانہ، منصفانہ انتخابات کی طرف آنا ہی پڑے گا، اس پر جتنی جلد عمل ہو جائے اتنا ہی بہتر ہے ۔


ہماری سوسائٹی کی فیبرکس ایسی ہے کہ بہت سے خانگی،سماجی جھگڑوں کی بنیاد ہی یہ الیکشن بنتے ہیں اس لئے ایک تو قوم کو بتانا ہے کہ ووٹ دینا سیاسی عمل ہے اسکی حثیت ایک رائے کی سی ہے،اس کو جس اچھے انداز میں ادا کریں گے اس کا فائدہ قوم کے ہر فرد کو ہو گا، دوسرا ووٹ کاسٹ نہ کرنے والوں کی باز پرس اور پوسٹل بلٹ کا عمل آسان، ا نتہائی شفاف بنانا بھی لازم ہے، یہ اعتماد تب ہی حاصل کیا جا سکتا ہے جب ووٹ کی حفاظت کاذمہ مقتدر اداروں کی بجائے الیکشن کمیشن لے،سیاسی جماعتوں کے حوالہ سے بھی ہمارا ماضی اتنا تابناک نہیں ہے، ان میں جمہوری روایات واجبی سی ہیں جس سے موروثی سیاست جنم لے چکی ہے،پارٹی ورکر کو کوئی عزت عطا نہیں کی جاتی،وہ پارٹی لیڈرز کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہنے کو ہی سیاسی خدمت خیال کرتا ہے۔


انتخابی اصلاحات تب ہی موثر ہو سکتی ہیں جب اس کے ذریعہ سے عام آدمی کی پارلیمنٹ تک رسائی ممکن ہو گی، اور قومی فیصلہ جات میں یہ شریک ہو سکے گا، خود کپتان نے الیکٹیبل کی کامیابی کی شروعات کر کے انتخابی عمل کو پراگندہ کیا ہے، خاموش ہارس ٹریڈنگ کا عمل اس کے علاوہ ہے،ایک طرف الیکٹرونک ووٹنگ کو لانے کا عندیہ تو دوسری طرف سینٹ میں شو ہینڈ کے ذریعہ الیکشن سے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے ؟انتخابی اصلاحات کا انحصار سیاسی جماعتوں کے اخلاص پر ہے کہ وہ الیکشن میں نہ صرف ووٹ کے تقدس کو یقینی بنائیں بلکہ اس کے ذریعے سے قومی اداروں کو بھی مضبوط کر یں۔

متناسب نمائندگی، طرز انتخاب پر غور کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، اس میں کم از کم ہر ووٹ اور ووٹر فیصلہ کن اہمیت تو رکھتا ہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :