حضرت شیخ سعدیؒ کا اللہ سے شکوہ

پیر 30 نومبر 2020

Ma Gi Allah Walley

ماں جی اللہ والے

حضرت شیخ سعدی ؒ 1210ء میں ایران کے شہر شیراز میں پیدا ہوئے، آپؒ کے والد کی وفات آپؒ کے بچپن میں ہی ہو گئی تھی۔ اپنی جوانی میںحضرت شیخ سعدیؒ نے غربت اور سخت مشکلات کا سامنا کیا اور بہتر تعلیم کے لیے آپ ؒنے اپنے آبائی شہر کو خیرباد کہا اور بغداد تشریف لے گئے۔ بغداد، شیراز سے کافی فاصلے پر تھا۔حضرت شیخ سعدیؒ پیدل چل رہے تھے۔

پیدل چلتے چلتے ان کا جوتا گِھس کر ٹوٹ گیا اور ایسی حالت اختیار کرگیا کہ جوتے کو پاؤں میں پہننا ممکن نہ رہا چنانچہ وہ ننگے پاؤں چلنے لگے ۔ ننگے پاؤں چلتے چلتے حضرت شیخ سعدی ؒ کے پاؤں زخمی ہوگئے۔یہاں تک کے وہ تکلیف کی شدت سے کراہنے لگے، اب ان کے لئے مزید چلنا دشوار ہوگیا وہ ایک جگہ تھک کر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ سے گلہ کرنے لگے کہ'' اے اللہ تعالیٰ ،اگر تو نے مجھے رقم دی ہوتی، میرے پاس پیسے ہوتے تو میں یوں پیدل سفر نہ کرتا، نہ ہی میرا جوتا ٹوٹتا، نہ ہی میرے پاؤں زخمی ہوتے اور نہ مجھے یہ تکلیف برداشت کرنا پڑتی۔

(جاری ہے)

''ابھی حضرت شیخ سعدی ؒ بیٹھے یہ سوچ ہی رہے تھے کہ انہیں ایک معذور شخص سامنے دکھائی دیا جس کے دونوں پاؤں ہی نہیں تھے ،وہ کھڑا بھی نہیں ہوسکتا تھا،وہ اپنے دھڑ ،کی مدد سے زمین پر خود کو گھیسٹتا ہوا بمشکل آگے بڑھ رہا تھا۔ حضرت شیخ سعدی ؒ نے جب یہ منظر دیکھا تو خدا تعالیٰ سے معافی مانگی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے بولے کہ'' میرے دونوں پاؤں سلامت ہیں، میں کھڑا بھی ہوسکتا ہوں، چل بھی سکتا ہوں۔

کیا ہو اجو میرے پاس رقم نہیں، سواری کا جانور نہیں، یا جوتے نہیں۔ اے اللہ تعالیٰ ،تیرا لاکھ لاکھ لاکھ شکر ہے میرے دونوں پاؤں سلامت ہیں۔ ''اس خیال کے ساتھ ہی حضرت شیخ سعدی ؒ نے زخمی ننگے پاوں کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کردیا۔حضرت شیخ سعدی ؒ دس مرتبہ پیدل حج کی سعادت بھی کرچکے ہیں۔آپؒ نے سو برس کی عمر پائی۔آپ کی دو کتابیں گلستان اور بوستان بہت مشہور ہیں-پہلی کتاب گلستان نثر میں ہے جبکہ دوسری کتاب بوستان نظم میں ہے-
شیخ سعدیؒ کی لکھے ہوئے سبق آموزقصے، کہانیاں جنھیں حکایات سعدیؒ بھی کہتے ہیں، بہت مشہور ہیں۔

اپنی کتاب گلستان میں انھوں نے ایک حاضر دماغ غلام کا قصہ بیان کیا ہے کہ ایران کے مشہور بادشاہ عمر دلیث کا ایک غلام موقع پاکر بھاگ گیا۔ لیکن لوگوں کو فوراً ہی معلوم ہو گیا اور وہ اسے گرفتار کر کے لے آئے۔بادشاہ کا ایک وزیر کسی وجہ سے اس غلام سے بہت ناراض تھا۔ غلام کے بھاگنے اور گرفتار ہو کر آنے کا حال معلوم ہوا تو اس وزیر نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اس گستاخ غلام کو فوراً قتل کرا دینا چاہیے۔

اگر اسے سخت سزا نہ دی گئی تو اور غلاموں کا حوصلہ بڑھے گا اور وہ بھاگنا شروع کر دیں گے۔غلام نے وزیر کی یہ بات سنی تو سمجھ گیا یہ ظالم دشمنی کی وجہ سے مجھے قتل کرانا چاہتا ہے۔ اس نے بہت ادب سے کہا کہ ''یہ غلام ،حضور بادشاہ سلامت کا نمک خوار ہے۔ بے شک مجھ سے ایک گناہ ہوا ہے لیکن میرے دل سے حضور کی خیر خواہی اور محبت کم نہیں ہوئی اور محبت اور خیر خواہی کی وجہ سے یہ عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ مجھے قتل کرا کے حضور میرا خون ناحق اپنی گردن پر نہ لیں،ایسا نہ ہو کہ جب قیامت کے دن میرے قتل کے بارے میں پوچھا جائے تو حضور جواب نہ دے سکیں،اگر مجھے قتل ہی کرانا چاہتے ہیں، تو پہلے اس کا جواز پیدا کر لیں۔

''بادشاہ نے سوال کیا'' وہ کیسے ہوسکتا ہے ؟''غلام فوراً بولا کہ'' حضور اجازت دیں تو میں اس وزیر کو قتل کر دوں اور پھر اس گناہ میں حضور مجھے قتل کر دیں۔'' غلام کی یہ بات سن کر بادشاہ کو ہنسی آ گئی۔ اس نے وزیر کی طرف دیکھ کر کہا'' بتا اب تیرا کیا مشورہ ہے؟''وزیر خوف سے کانپتے ہوئے بولا'' حضور اس فتنے کو اپنے بزرگوں کے صدقے آزاد ہی کر دیں تو اچھا ہے۔

ایسا نہ ہو یہ سچ مچ مجھے کسی آفت میں پھنسا دے قصور میرا ہے کہ میں نے عقلمندوں کی یہ بات یاد نہ رکھی۔
گو حقیر آئے نظر پھر بھی حقیر اس کو نہ جان
اپنے دشمن کی طرف ہاتھ بڑھانے والے
تیرے دشمن کے نشانے پہ بھی ہے تیر سر
خوب یہ بات سمجھ تیر چلانے والے
اس حکایت میں حضرت شیخ سعدیؒ نے جرأت اور ہوشمندی کی برکات اور فوائد کی طرف اشارہ کیا ہے اور حاسدوں اور دوسروں کا برا چاہئے والوں کو ان کے انجام سے ڈرایا ہے۔ غلام نے انتہائی خوف کی حالت میں بھی حواس بحال رکھے تو ایک بڑی مصیبت اس کے سر سے ٹل گئی جبکہ وزیر نے غلام کا برا چاہا تو ایسا بلند مرتبہ رکھتے ہوئے بھی وہ ذلیل ہو گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :