ہم کیا چاہتے ہیں۔۔۔آزادی؟

ہفتہ 20 مارچ 2021

Maimoona Javed

میمونہ جاوید

آسمان پر اڑتے پرندوں کو دیکھ کر خیال آیا کہ یہ بھی تو آزاد ہیں۔ان کو کسی قسم کی کوئی روک ٹوک بھی نہیں لیکن وہ پھر بھی قدرت کے بنائے نظام پر نہ  صرف خوش بلکہ اُس پر عمل کرتے بھی نظر آتے ہیں۔اِس بات کا اندازہ ہم یہاں سے لگا سکتے ہیں کہ صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی چرند پرند اپنے گھونسلوں سے نکل کر اپنے کاموں میں مگن ہو جاتے ہیں اور سورج غروب ہوتے ہی وہ دنیا کے کاموں کو چھوڑ کر اپنے گھونسلوں کی طرف رواں دواں۔

۔۔
اور ہم انسان جنہیں اشرف المخلوقات کہا گیا۔جنہیں عقل والا کہا گیا ہمیں اب آزادی چاہیے۔اللہ کے بنائے نظام کو درہم برہم کرکے ہم بلکل آزاد ہونا چاہتے ہیں اور پھر ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہم خوش رہیں اور غم ہمارے قریب سے بھی نہ گزرے۔ اور دوسری طرف ہم قدرت کے قانون کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں۔

(جاری ہے)

کیا اقبالؔ نے ہمیں شاہین اس لیئے کہا تھا کہ ہم قدرت کے قانون کو الٹا کر دیں۔

کیا ہمیں شاہین کا لقب اس لیے دیا گیا کہ ہم زندگی کے مقصد کو ہی بھول جایئں۔
 محض اپنی چند خواہشات کو پورا کرنے کی خاطر ہم سڑکوں پر نکل کراللہ، رسول کے خلاف نعارے بلند کر دیتے ہیں۔کیا ہماری سوچ کا المیہ بس یہی رہ گیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہم آزادی چاہتے بھی ہیں تو کس سے؟ اللہ سے، دین سے یا اللہ کے بنائے قانون سے۔۔۔انسان بہت ناشکرا بن چکا ہے۔

ہمیشہ زیادہ سے زیادہ کی خواہش میں اب وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔انسان اب انسان رہا ہی نہیں اب وہ صرف اپنے لیئے جیتا ہے۔ صرف اپنے مقصد کو پورا کر کے اُسے خوشی ملتی ہے لیکن پھر بھی ہم ہر جگہ خوشی کو تلاشتے پھرتے ہیں۔کیوں؟ کیونکہ ہمیں اپنا مقصد پورا کر کہ بھی خوشی، دل کا سکون حاصل نہیں کیوں کہ ہم اللہ کے بنائے قانون کو ختم کر دینا چایتے ہیں اور اپنی مرضی کرنا چاہتے ہیں۔
آزادیِ افکار سے ہے اُن کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکروتدبر کا سلیقہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :