قیمتی یادیں

ہفتہ 3 جولائی 2021

Maimoona Javed

میمونہ جاوید

کہیں کھو گئے ہیں ہم اِس دنیا کی رونقوں میں۔ کتنا کچھ پیچھے چھوڑ آئے۔ جیسے احساس تک نہیں ہوا۔ دنیا جیسے جیسے ترقی کرتی گئی ہم آگے تو بڑھ گئے پر کچھ پیاری یادیں پیچھے چھوڑ آئے جس کا شاید کوئی نعملبدل نہیں۔ یہ خوبصورت یادیں کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ جڑی ہیں جو کچے مکانوں کے مکین تھے اور اپنے چھوٹے ہی سہی پر کچے مکانوں میں رہنا پسند کرتے تھے۔

جن کی صبح کا آغاز نمازِفجر سے ہوتا تھا اور ناشتے مکھن، ملائی سے۔ گھر کے پالتو مویشیوں کے دودھ کی لسی اور چائے۔ جس کا مقابلہ آج کل کے فائیو سٹاریاسیون سٹارہوٹل تک نہیں کر سکتے۔
شہروں میں آپ کو سب کچھ ملے گا پر خالص محبت دینے میں یہ شہرآج بھی بہت غریب ہیں۔ آج شہروں کی زندگی تو کافی شاندار ہو چکی ہے۔

(جاری ہے)

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا دینے کے لئے ایئر کنڈشنرزجگہ جگہ دستیاب ہیں۔

پر وہ گاؤں کے پیڑ کی چھاؤں کا سکون اور ٹھنڈی ہوا، صحن میں پڑی چارپائیاں جہاں سب خاندان مل کر بیٹھا کرتے تھے۔ یادوں کے پرانے قصے، خالص دودھ سے بنی چائے کی چسکیاں، تازہ پھلوں کے رس سے لطف اندوز ہونا، کھانے میں وہ مٹی کے برتنوں میں بنا ساگ مکھن اور اُس کے ساتھ مکئی کی روٹیاں یہ سب جیسے ایک خواب بن کے رہ گیا ہے۔ وہ گاؤں ہی تھے جہاں فرشتے بستے تھے۔

جہاں بچوں کے ساتھ بوڑھے بلکہ گھر کا ہر فرد ہی رونق ہوا کرتا تھا۔ وہ اونچی اونچی فصلوں کے درمیان بنے کچے رستے، اُن رستوں پہ بِنا کسی خوف کے کھیلتے، بھاگتے بچے، وہ تیز ہوا کے جھونکوں میں لہلہاتی گندم، وہ مویشیوں کے گلے میں بندھی گھنٹی کی آوازیں  جہاں لوگ بظاہر بھی اور دلوں سے بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ وہ لہجوں میں بھری محبتیں اور خلوص، وہ اپنائیت کا احساس شہروں میں رہ کے یہ قیمتی احساس شاید ہم نے کھو ہی دیے ہیں۔

یہ خوبصورت احساس تو قابل بیان بھی نہیں۔ گاؤں کے کچے مکان  شہر کی اونچی عمارتوں کے برابر تو نہیں پر وہ اُن جنتوں کا سکون شہروں میں میسر بھی نہیں۔ وہ قدرتی حُسن جو گاؤں کے ہر گھر سے دکھنے کو ملتا تھا اِن شہروں میں اُس حُسن کو تلاشنے کے لئے گھروں سے میلوں دور جانا پڑتا ہے۔ شہر میں انسان نے ترقی تو بہت کر لی مگر بہت کچھ کھو بھی دیا۔  یہ شہر آج بھی گاؤں کا مقابلہ نہیں کرسکتے یقین نہیں۔۔۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :