ڈونٹ کمپیئر

بدھ 30 جون 2021

Maimoona Javed

میمونہ جاوید

ہم جانتے ہیں اللہ نے ہر انسان کو ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے۔ جس طرح ہر انسان کا چہرہ باقیوں سے مختلف اور اپنی پہچان رکھتا ہے۔ اُسی طرح ہر انسان کی سوچ الگ، نظریہ الگ، زندگی جینے کا انداز الگ، اور شوق بھی تو سب سے مختلف ہو سکتے ہیں۔
لازم بھی تو نہیں کہ سب کے شوق، سب کی سوچ ایک سے ہوں۔
اکثر دیکھا جاتا ہے کہ والدین چاہتے ہیں کہ جیسے وہ ہیں اُن کی اولاد بھی ویسی ہی ہو۔

اور اکثر وہ اپنی اولاد کا موازنہ دوسروں سے کرتے نظر آتے ہیں۔ میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ والدین اولاد کے دشمن ہیں یا وہ اُن کا بُرا چاہتے ہیں۔ میں آج اپنے قلم کے زریعے بس یہ بتانا چاہتی ہوں کہ جیسے لازم ہے اولاد پہ والدین کا احترام ویسے اگر والدین بھی اپنی اولاد کے فیصلوں کا احترام کریں تو زندگی میں اولاد آپ کا فخر ہی بنے گے۔

(جاری ہے)

اُن کو غلط سے ضرور روکیں لیکن اُن کا موازنہ کسی دوسرے سے نہ کریں۔


ہم نے اکثر دیکھا شاید یہ ہر گھر کی ہی کہانی ہے جہاں بیٹیوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ فلانے کی بیٹی نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ پورا گھر بھی سمبھالہ ہوا ہے۔ پڑھائی میں بھی اول آتی ہے۔  تم تو اُس کے برابر کہ بھی نہیں ہو۔ تم سے تو کئی اچھی ہے فلانے کی بیٹی۔ تم نہ گھر سمبھال سکتی ہو نہ پڑھائی میں کوئی اچھی کارگردگی دیکھاتی ہو۔ نہ کام کی نہ کاج کی، دشمن اناج کی والا محاورہ تم جیسوں کے لئے ہی بنا ہے۔

۔۔
اس کا شکار صرف لڑکیاں نہیں لڑکے بھی ہیں۔ فلانے کا بیٹا اتنی سی عمر میں باپ کے ساتھ برابر کا کھڑا ہو گیا ہے۔ باپ کے کندھوں پہ بوجھ بن کے نہیں بیٹھا ہوا۔ فلانے کے بچے نے پڑھائی کے ساتھ نوکری کر کے پورا گھر سمبھالہ ہوا ہے۔
یہ کچھ مثالیں تھی ہمارے معاشرے کی۔ یقین مانیں یوں اپنی اولاد کو دوسروں سے کمپئیر کرنا اُن کی خودمختاری پہ ایک تھپڑ ہوتا ہے اور وہ خود کو کہیں نہ کہیں دوسروں سے کمتر سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔

پھر شاید وہ جو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ نہیں کر پاتے۔ اللہ کے بعد انسان کی طاقت اُس کے گھر والے ہی تو ہوتے ہیں۔ جب گھر والے ہی اُنہیں ہمت و حوصلہ نہ دیں اور اُن پر اعتماد نہ کریں تو وہ کیسے ہمت کریں گے کہ وہ اپنا نظریہ دوسروں کو سمجھا سکیں۔ اپنا ہنر لوگوں کو دکھا سکیں۔ ہم میں بہت سے تو اُمید تک ہار جاتے ہیں۔ میرا والدین سے بس یہ چھوٹا سا اختلاف ہے کہ آخر کیوں وہ سمجھ نہیں پا رہے کے اُن کی اولاد باقیوں سے مختلف ہے۔


لازم نہیں کہ پڑوس میں بچہ انجینئر بن رہا ہے تو آپ کا بچہ بھی انجینئر ہی بنے ہو سکتا ہے آب کا بچہ پائلٹ بننا چاہتا ہو اور وہ اُس کے لیے محنت بھی کر رہا ہو لیکن آپ کے بولے ہوئے کچھ الفاظ یا جملے اُس کی ہمت توڑ دیں یا اُسے احساسِ کمتری میں ڈال دیں۔ تو خدارا اپنی اولاد کا موازنہ کسی سے بھی نا کریں۔ ہاں اُن پر نظر ضرور رکھیں کہ وہ رستے سے بھٹک نہ جائیں۔

نئی جنریشن کو سمجھیں۔ اُن کو سنیں، اعتماد کریں اور وقت دیں۔  وہ آپ کا سر فخر سے ضرور بلند کریں گے۔ اُنہیں بس چاہیے تو آپ کا ساتھ اور یقین۔
جب اللہ نے ہی ہم سب کو ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے تو پھر کیوں ہم خود اپنا موازنہ یا کوئی اور ہمارا موازنہ کسی دوسرے سے کرے۔ جہاں والدین اپنی اولاد کا موازنہ دوسروں سے کرتے نظر آتے ہیں وہاں کچھ نوجوان بھی ایسے ہیں جو خود کا دوسروں سے موازنہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اُن سے بھی گزارش ہے کہ اپنے حوصلے بلند رکھیں اور سب سے بڑھ کر خود پر اعتماد کریں ورنہ دونوں صورتوں میں  نتیجہ ایک ہی نظر آتا ہے اور وہ ہے خود اعتمادی میں کمی۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :