ایک عظیم قربانی (APS)

جمعرات 16 دسمبر 2021

Maisha Aslam

معیشہ اسلم

16 دسمبر 2014 اس دن کی تلخ یادوں کو کون بھول سکتا ہے, اس دنیا کا سب سے بھیانک دن جسے BLACK DAY کے نام سے جانا جاتا ہے۔
16 دسمبر 2014 کی بات ہے میں COTHM کالج کی سٹوڈنٹ ہوا کرتی تھی, دوپہر 2 بجے میری کلاس شروع ہوا کرتی تھی, کالج جانے سے پہلے ناشتہ کرتے وقت ٹیلی ویژن دیکھنا حسب معمول سی بات تھی, چینلز چینج کرتے کرتے نیوز چینلز کی ایک لمبی فہرست کی شروعات ہوئی اور کیا دیکھتی ہوں کہ تمام نیوز چینلز پر ایک ہی بریکنگ نیوز چلتی دکھائی دی کہ آرمی پبلک اسکول (پشاور) کے اندر کچھ دہشتگردوں نے حملہ کر دیا ہے اور ہماری آرمی ان دہشتگردوں کا خاتمہ کرنے اور معصوم بچوں اور اساتذہ کو صحیح سلامت نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

  یہ خبر سنتے ہی اسکول کے باہر والدین کا ہجوم اکٹھا ہونا شروع ہو گیا کہ کسی طرح اپنے بچے کو صحیح سلامت ایک نظر دیکھ سکیں,بس اتنی خبر دیکھنے کے بعد میں نے ٹیلی ویژن بند کیا اور کالج کے لیے روانہ ہوئی, کالج پہنچ کر سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے کالج میں چھٹی کا وقت ہو گیا, اس وقت رات کے 8 بج رہے تھے,  کلاس سے نکلتے نکلتے وہاں لوگوں کو آپس میں باتیں کرتے سنا کہ یار  آج دیکھا اسکول میں کیا ہوا, کسی کام میں دل نہیں لگ رہا, بھوک پیاس نہیں لگ رہی,  بار بار خوف طاری ہو رہا ہے, میرے ذہن سے وہ دردناک منظر نہیں نکل رہے ایسے حملے سن کر اب میرے دل کو بھی کچھ کچھ ہونے لگا تھا کہ ایسا کیا ہو گیا ہے اسکول میں۔

(جاری ہے)


گھر پہنچنے پر گھر والوں کے منہ سے بھی ایسے ہی الفاظ اور جملے سنے تو پریشانی اور بڑھ گئی, فوراً جوتے اتار کر کمرے میں داخل ہوئی اور نظر چلتے ہوئے ٹیلی پر پڑی تو کچھ وقت کے لیے مجھے کچھ ہوش نہ رہا جب ہوش آیا تو آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے 157 لوگوں کو گولیوں سے چھلنی چھلنی کرکے شہید کر دیا گیا ہے جن میں بچے اور ٹیچرز شامل ہیں اور سو سے زائد لوگ زخمی تھے۔


وہ مناظر جو اس وقت تمام چینلز والے دکھا رہے تھے وہ پوری دنیا کے لیے بہت ہی زیادہ دردناک تھے پورا سکول خون سے بھرا ہوا تھا معصوم بچوں کی لاشیں جگہ جگہ بکھری نظر آ رہی تھیں۔ یہاں تک کے اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی نے بچوں کو بچانے کی بہت زیادہ کوششیں کی کہ کسی طرح ان بچوں کو ان درندوں سے بچا سکیں لیکن ان جہنمیوں نے طاہرہ قاضی کو بچوں کے سامنے جلا ڈالا۔

ان درندوں نے کسی کا لحاظ نہ کرتے ہوئے تمام کلاسز کے طالب علموں کو اپنا نشانہ بنایا آخر بچے ہی تو تھے کہاں تک مقابلہ کرتے کب تک ان سے اپنی جان بچاتے۔ ایک طرف دہشتگرد اپنے اس گھناؤنے کھیل کو جاری رکھے ہو ئے تھے تو دوسری طرف ہماری آرمی ان کا مقابلہ کر رہی تھی اور کتنے ہی بچوں کو بحفاظت پچا کر ان کے والدین کے حوالے کیا اور زخمیوں کو ہسپتال روانہ کیا۔

ہماری آرمی کے جوانوں نے ہمت اور دلیری کے ساتھ بے خوف ہو کر ان 7 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا۔ ان خبروں کے بعد جیسے بھوک پیاس ہی مر گئی ہو, رات ہوتی چلی گئی اور دکھ بھی زیادہ ہوتا گیا بار بار میں اپنے موبائل پر ہی ان خبروں کو سنتی رہی دیکھتی رہی اسی کے ساتھ ساتھ خوف بھی بڑھتا جا رہا تھا کہ اب یہ دہشتگرد کس اسکول کو اپنا نشانہ بنائے گے اس سوچ اور خوف کے مارے کئ دن تک نیند بھی نہ آ سکی۔


حکومت کی طرف سے بھی اعلانات آنا شروع ہو گئے اور تمام اسکولوں میں ایک ماہ کی چھٹیوں کا اعلان کیا اور پھر اس واقعے کے بعد 2015 میں حکومت کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان کے تحت تمام دہشتگردوں کے خلاف  آپریشن شروع ہوا جس میں تمام دہشتگردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا گیا اس آپریشن کو ZARB-e-AZB  کے نام سے جانا جاتا ہے اس آپریشن میں ہمارے اپنے جوان بھائیوں نے بھی قربانیاں دیں اور اپنے وطن کے لوگوں کے سکون کی خاطر خود شہید ہو گئے اور اس ملک کو دہشتگردوں سے پاک کیا۔


اب اس ہولناک واقعہ کا دوسرا رخ دیکھیں اور محسوس کریں تو ان والدین پر کیا گزری ہو گی جن کے بچے اس واقعے میں شہید ہوئے,کیا گزری ہوگی ان والدین پر جب اپنے بچوں کے بدن کو خون سے بھرا اور گولیوں سے چھلنی دیکھا ہوگا,  ان والدین کی سوچیے جنہوں نے اپنے بچوں اسکول یونیفارم پہنا کر بھیجا اور واپسی پر سفید رنگ کی چادر میں پایا ان والدین  کا دکھ محسوس کریں جس نے اپنا ایک نہیں بلکہ دو بچوں کو ایک ساتھ مٹی کے سپرد کیا ہوگا۔

بے شک ہم ان کا درد محسوس کر سکتے ہیں۔
آج اس واقعے کو گزرے سات سال ہو چکے ہیں مگر وہ زخم آج بھی تازہ ہیں اس واقعے کو یاد کرتے ہیں تو آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ آج بھی اسکول کی دیواریں ان معصوم بچوں کی دردناک چیخیں اور گولیوں کی آوازوں سے لرز اٹھتی ہیں,آج بھی بچوں کے خون سے بھرے کپڑے جوتے کاپیاں کتابیں بھی ان بچوں کی دی گئی قربانی کے گواہ ہیں۔ اور اس قربانی کی وجہ سے آج ہمارے ملک میں امن و امان کی فضاء قائم ہو پائی ہے۔ میں اور میری قوم ان تمام  شہید ہونے والےٹیچرز اور بچوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور آخر میں یہی کہنا چاہونگی کہ........
تو سمجھتا ہے ہم بھول گئے تجھ کو
ایسا ہوا تو دن ہمارا آخری سمجھنا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :