پولیو کے قطرے (ضرورت زندگی)

جمعرات 16 ستمبر 2021

Maisha Aslam

معیشہ اسلم

پاکستان  دنیا کے ان تین  ممالک میں شامل ہے جہاں نائیجیریا اور افغانستان کی طرح  پولیو وائرس کی موجودگی  پائی جا رہی ہے ۔ اس موذی وائرس کے خاتمے کے لیے کوشش جاری ہے ، بلاشبہ پاکستان نے اس وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے حوالے سے گراں قدر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
افغانستان، نائیجیریا اور پاکستان کے سوا دنیا بھر میں پولیو کا ایک کیس بھی موجود نہیں  ہمارے وطن عزیز پاکستان میں سامنے آنے والے پولیو کیسوں کی تعداد 2019میں 134رواں برس اب تک پولیو کیسوں کی تعداد 17ہو چکی ہے گزشتہ روز 5نئے پولیو کیسز کا سامنے آنا نہایت تشویشناک ہے کہ آئے روز پولیو کیسوں کی تعداد میں اضافہ دنیا بھر میں پاکستان کیلئے جہاں ایک طرف بدنامی کا باعث ہے وہیں دوسری طرف ہماری نئی نسل کو معذور ی جیسے انجام کا سامنا کرنا پڑتا ہے گزشتہ چند  سالوں میں  پاکستان کے اندر پولیو وائرس کے کیسوں میں بتدریج کمی آئی تھی جس پر ماہرین امید کر رہے تھے کہ پاکستان پولیو وائرس کے خاتمے کے قریب ہے لیکن نئے پولیو کیسوں نے پولیو وائرس کے خاتمے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان میں گزشتہ 12برسوں کے دوران  1201کیس سامنے آئے جس کی وجہ سے بچے پولیو وائرس سے معذور ہوئے جبکہ پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے والے 60سے زیادہ افراد قاتلانہ حملوں میں اپنی جانوں سے
ہاتھ دھو بیٹھے۔ اِس تشویشناک صورتحال کے پیش نظر پولیوں کے حوالے سے میڈیا نے کافی کردار ادا کیا   ملک بھر میں پولیو سے متعلق آگہی پھیلانے کا ملکی فریضہ بھی انجام دیا۔

ا بھی تک ملک میں  پولیو مہم جاری ہے جس میں 2لاکھ 65ہزار پولیو وزکرز 39.6ملین بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں گے۔
آئے روز نئے پولیو کیس ہمارے  پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی اور عالمی برادری کے سامنے شرمندگی کا باعث ہیں لہٰذا حکومت کو اس کام میں پیش آنیوالی تمام رکاوٹیں بلاتاخیر دور کرنا چاہئیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ متعلقہ اداروں اور اہلکاروں کو اس مقصد کیلئے ٹائم فریم دیا جائے اور ہدف کے حصول کیلئے پولیو ورکرز کو تمام ضروری سہولتیں اور مراعات مہیا کی جائیں۔ اگر منفی عناصر بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے سے روکنے کیلئے والدین پر دباؤ ڈالتے ہیں تو اس سے نمٹنا بہتر طور حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :