ہم نہ ہونگے پر تمہارا نام رہے گا (عمر شریف)

پیر 11 اکتوبر 2021

Maisha Aslam

معیشہ اسلم

خدا نے خود فرمایا ہے کہ عزت اور زلت صرف اسی کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے ذلت دے اور جسے چاہے عزت دے, ہمارے ارد گرد ایسے بہت سارے  لوگ  جنہیں اللہ نے صرف عزت ہی عزت بخشی وہ ہمارے درمیاں اب بھی موجود ہیں لیکن ایسے بہت سارے لوگ اس دنیا سے رخصت بھی ہو چکے ہیں جن میں سے ایک ایسا روشن ستارہ جو حال ہی میں ہم سے بچھڑ کر آسمان کے روشن ستاروں سے جا ملا, جی ہاں بلکل میں عمر شریف صاحب کی بات کر رہی ہوں جنہیں King of comedy کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

اللہ نے  انہیں صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی عزت افزائی کا شرف بخشا ۔ عمر شریف صاحب ایک بہت اچھے لکھاری, اداکار,کامیڈین, ڈائریکٹر, پروڈیوسر اور ٹیلی ویژن پرسنیلٹی رہ چکے ہیں اور ان تمام فیلڈز میں اپنی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دیں
یہ ستارہ 19 اپریل 1960 میں لیاقت آباد (کراچی) کی گلیوں میں اردو زبان سے تعلق رکھنے والے گھرانے میں روشن ہوا۔

(جاری ہے)


پچپن سے ہی دوسروں کی نکلیں اتارنے کا ٹیلینٹ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا, عمر شریف صاحب نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے خود بتایا کہ جب وہ چھوٹے تھے تو گلی میں فقیر آتا تھا اس کے جانے کے بعد وہ فقیر کی آواز کو کاپی کر کے گلی میں آواز لگاتے اور لوگ سمجھتے تھے کہ پھر سے فقیر آگیا اس بات کا ذکر کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے یہ انعام پیدائشی طور پر ان کے اندر موجود تھا اور یہی ٹیلنٹ ان کی وجہ شہرت بنی۔


1974 میں, 14 سال کی عمر  میں ایک  اسٹیج پرفارمر کے طور پرکراچی سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا, اسٹیج کا نام  عمر ظریف استعمال کرتے ہوئے تھیٹر میں شمولیت اختیار کی لیکن بعد میں اس کا نام عمر شریف رکھ دیا گیا اور پھر جیسے کامیابیوں نے ان کے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہو۔  اپنی اداکاری اور کامیڈی سے پاکستان میں تو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا ہی چکے تھے کہ 1989 میں مزاحیہ اسٹیج ڈرامہ بکرا قسطوں پر جو کہ آپ نے خود لکھا تھا نے پاکستان میں تو کیا ہمسایہ ملک انڈیا میں بھی آگ لگا دی اور وہاں کے مقبول اداکار آپ کی ایکٹنگ سے بہت متاثر ہوئے اور آپکی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔

عمر صاحب چونکہ ایک بہت اچھے لکھاری بھی تھے تو اپنے ڈرامے بھی خودی لکھا کرتے تھے۔ جب عمر صاحب انڈیا گئے وہاں بھی آپکے مداحوں نے آپ کا پر جوش استقبال کیا اور آپ  نے اپنی کامیڈی سے ان کے دل جیت لیے اور ان کی محفلوں کو چار چاند لگا دیئے۔ انڈیا کے کامیڈی پروگرام  The great Indian laughter challenge  میں جج کا عہدہ مل گیا اور یہ بات آپ کے لیے کسی اعزازسے کم نہ تھی۔

اور یوں ایک کے بعد ایک کامیابی آپ کے قدموں تلے بچھتی چلی گئی۔ 2009 میں جیو ٹی وی چینل سے پروگرام The Shareef Show سے اپنی ہوسٹنگ کا آغاز کیا اور بہت سے اداکار, سیاستدان, موسیقار اور اینٹرٹینرز کے انٹرویوز کیے اور ہوسٹنگ  میں بھی کامیابی حاصل کی۔ جیسے جیسے کامیابیوں کی راہیں ہموار کرتے گئے ساتھ ساتھ آپ کو مختلف اعزازوں کے ساتھ بھی نوازا جاتا رہا جن میں نگار ایوارڈ اور تمغہ امتیاز سرپرست ہیں۔


جہاں زندگی میں اتنی ساری خوشیاں موجود ہوتی وہاں بہت سے  دکھ بھی آپ کے منتظر ہوتے ہیں اور ایسا ہی ایک دکھ عمر شریف کی زندگی میں ان کی جوان بیٹی کی موت کا تھا جس سے عمر شریف کو صدمے سے دو چار ہونا پڑا چونکہ آپ کینسر کے میں مبتلا تھے تو اس غم کے بعد آپ کی صحت دن بہ دن گرتی چلی گئی۔10 ستمبر 2021 ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عمر شریف صاحب کی حالت نازک تھی اور اس ویڈیو کو انڈیا تک رسائی حاصل ہوئی اور انڈیا کے معروف اداکاروں اور گلوکاروں نے دعاؤں بھرے پیغامات سوشل میڈیا کے ذریعے آپ تک پہنچاے اور پاکستان کی عوام نے وزیراعظم عمران خان سے اپیل کی کہ ان کاعلاج بیرون ملک کروانےکی  ہر ممکن کوشش کی جائے۔

وزیر اعظم نے عمر شریف کے مداحوں کی اس اپیل کا نوٹس لیتے ہوئے امریکہ بھیجنے کی تمام تیاریاں مکمل کروائیں اور ان کو امریکہ کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ امریکہ تک پہنچنے کے لیے ایک طویل راستہ کاٹنا پڑتا ہے, حالت خراب ہونے کے باعث عمر شریف کو جرمنی کے ہسپتال میں داخل کر دیا گیا اور طبیعت ناساز ہونے کے باعث  اپنی بیماری کا بہادری سے مقابلہ کرتے کرتے 2 اکتوبر کی دوپہر کو جرمنی میں انتقال فرما گئےاس خبر سے دنیا کے کونے کونے میں  عمر شریف صاحب کے رہائش پذیر مداحوں نے اپنے دکھ کا اظہار سوشل میڈیا کے ذریعے کیا جن میں بالی وڈ  کے اداکار بھی شامل ہیں۔

اور یوں ایک شخص کی زندگی کا باب بند ہو گیا۔  
ان کی میت 6 اکتوبر کو پاکستان پہنچائی جائے گی اور تدفین کا کام مکمل کیا جائے گا۔
ایک ایسا شخص جس نے اپنی ساری زندگی صرف دوسروں کو ہنسانے میں وقف کر دی آج وہ تمام لوگوں کو روتا چھوڑ گیا,مگر یہ وہ چراغ ہے جس کی لو کی روشنی کبھی کم نہ ہو گی ہمیشہ قائم رہے گی۔ عمر شریف ایک ایسا نام ہے جو برسوں بعد آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشعل راہ ہو گا, ایسا فنکار اب کبھی پیدا نہیں ہو گا کیو نکہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :