موت کی حسین وادی۔۔۔

جمعرات 13 جنوری 2022

Maisha Aslam

معیشہ اسلم

سال کا آخری مہینہ دسمبر شروع ہوتے ہی سردی میں اضافہ ہونے لگتا ہے خاص کر کے دسمبر کے آخری دنوں اور آنے والے نئے سال کے پہلے ماہ جنوری تک برف باری کے مناظر بھی دیکھنےکو ملتے ہیں اسی لیے لوگ سردی کے موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان کے رہائشی بڑی تعداد میں مری کی جانب رخ کرتے ہیں جہاں برف باری سے ہر چیز موتیوں کی سفید چادر اوڑھے ہوتی ہے۔

مری جس کا مطلب چوٹی کے ہیں اور اسلام آباد کے شمال مشرق میں تقریباً 30 کلومیٹر (19 میل) کی دوری پر واقع ہے اس کی اوسط اونچائی 2,291 میٹر (7,516 فٹ) ہے۔ انگریزوں نے یہ قصبہ اپنے دورِ حکومت میں پنجاب کے میدانی علاقوں میں گرمیوں کی شدید گرمی سے بچنے کے لیے بنایا تھا۔
ہر بار کی طرح اس بار بھی لوگوں کی بڑی تعداد نے مری کا رخ کیا مگر اس بار تعداد ہزاروں کے ہندسوں میں تھی جس میں بچے, بوڑھے, جوان اور عورتیں سبھی عمر کے افراد شامل تھے, کوئی اپنے دوستوں کو ساتھ لایا تھا تو  کوئی اپنے اہلیہ اور بچوں کو ہمراہ لایا۔

(جاری ہے)

مری میں گاڑیوں کی تعداد 35000 سے بھی تجاوز کر گئی اور لمبی قطاریں لگ گئیں۔ پہلے پہل تو سوشل میڈیا پر اس بات کو لے کر بڑی خوشی اور حیرانی کا اظہار کیا گیا اور کچھ حکومتی وزراء نے بھی بڑے فخریہ انداز میں ٹویٹر پر اپنے پیغام دیئے کہ جیسے ہمارے ملک کا سارا قرضہ اتر جائے گا مگر مری میں ہونے والی برف باری نے ایسی قیامت ڈھائی کہ شاید کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ جس برف باری کو دیکھنے دور دراز کے علاقوں سے لوگ جمع ہوئے ہیں وہی برف ان کی موت کی ذمہ دار بنے گی۔


برف باری ایسی شروع ہوئی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے 4 سے 5 فٹ ہر طرف برف ہی برف دکھائی دینے لگی, اپنی منزل کے قریب پہنچنا تو دور لوگ بیچ سفر میں ہی اٹک کر رہ گئے راستے بلاک ہو گئے۔ 7 سے 8 گھنٹے گزر جانے کے بعد لوگوں کو یہ برف آفت زدہ لگنے لگی تو اپنے پیاروں  کو مدد کے لیے پکارنے لگے۔ انتظامیہ نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے اور لوگ شدید سردی اور بھوک پیاس سے گاڑیوں میں دم توڑنے لگے دیکھتے ہی دیکھتے اموات کی تعداد 21 تک جا پہنچی,گاڑی میں اپنے خاندان کے ہمراہ دم توڑنے والے ایک فرد کی ویڈیو نے جب سوشل میڈیا پر تہلکہ مچایا تب جا کر ہمارے نالائق حکمران کے بیانات سامنے آنا شروع ہوگئے کہ اتنے لوگوں کو ایک ساتھ جانا نہیں چاہیے تھا یا کسی نے اس برف باری کو قدرتی آفات کا نام دیا, مری کو آفت زدہ قرار دیا جانے لگا مگر کسی نے بھی وہاں کی انتظامیہ کے خلا ف ایک لفظ تک نہیں کہا.........
ایسی صورت حال پر تو شاید کسی دشمن کا بھی دل تھوڑا بہت پگھل جاتا مگر ہماری خود کی قوم کے لوگ اتنے بے حس ہو گئے کہ اپنے بہن بھائیوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا اور ہوٹلوں میں ایک رات گزارنے پر لاکھوں روپے بٹورنے لگے یہاں تک کہ عورتیں اپنے زیورات بیچنے پر مجبور ہو گئیں کہ کسی طرح ایک رات گزاری جا سکے, گاڑیوں کو دھکا لگانے پر بھی سودے بازی سے باز نہیں آئے چھوٹی گاڑی کو دھکا لگانے کے 5 جبکہ بڑی گاڑی کے 8 ہزار مقرر کیے گئے,کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں ایک ایک انڈا 500 میں فروخت ہونے لگا کہ توبہ توبہ قیامت کل کو آتی آج آئے اففففففف................ مجھے شرم آتی ہے کہ میرا تعلق ایسی بےحس, ظالم, حرام کھانے والی اور ایک قتل قوم سے ہے۔

 
اس بار بھی لوگوں کو بچانے کے لیۓ ہماری آرمی میدان میں اتری جو لوگوں کو موت کی راہ سے بحفاظت نکال لائے, خود دن رات برف میں ٹھٹھرتے رہے مگر ہمت نہیں ہاری اور تمام لوگوں کو انکی ضروریات کی اشیاء فراہم کیں۔
دوسری طرف ہمارے نالائق حکمران اس بار بھی اس ہونے والے واقعے پر اپنی اپنی گندی سیاست چمکاتے رہے اور ایک دوسرے کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے مگر کسی کو بھی برف میں پھنسے لوگوں کا خیال نہ آیا۔


اس واقعے سے بہت سارے سوال جنم لیتے ہیں مگر سوال کریں تو کس سے کریں سب کے سب فرعون بنے بیٹھے ہیں, 21 لوگوں کی موت کے ذمہ دار ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں۔
اس حکومت سے عمران خان سے ایک اپیل ضرور کروں گی کہ وہاں کے ہوٹلز مالکان کے خلاف مقدمہ درج کریں اور سخت کارروائی عمل میں لائی جائے, جن جن کے ہاتھ ان معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہیں ان کو سخت سے سخت سزا سنائی جائے۔  
آخر میں اپنی پاک آرمی کے جوانوں کا شکریہ ادا کروں گی اور جس ماں نے باپ بہن بھائی نے اپنے پیاروں کو کھویا, وہ پیارے جو ہنسی خوشی چھٹیاں گزارنے کے لیے حسین وادیوں کا رخ کیا انہیں کیا پتہ تھا کہ یہی حسین وادیاں ان کی موت کا پروانہ لیے بیٹھی ملیں گی اللہ ان سب کے اہل خانہ کو صبر عطا فرمائے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :