صدارتی نظامِ حکومت کی باتیں اور حقیقت حال

جمعرات 8 مارچ 2018

Majeed Ghani

مجید غنی

ملک میں سیاسی افراتفری کا دور ہو یا انتخابات قریب ہوں ۔ سیاسی نظام میں تبدیلی کے حوالے سے گفتگو ضرور شروع ہو جاتی ہے ۔ آج کل بھی ملک کے حوالے سے سو چ بچار کرنے والے حلقوں میں پارلیمانی نظام زیر بحث ہے۔ اپنی اپنی دانست میں وطن عزیز کی بہتری سوچنے والوں میں سے کچھ طبقات اور دانشور موجودہ کشیدہ اور ابتر صورتحال کی بہتری ، کرپشن کے خاتمے، امن عامہ کو بہتر بنانے، عوام کی حالت ِ زار کی بہتری ، بہتر نمائندوں کے چناؤ، معیشت کی بحالی، گڈ گورنس ، مہنگائی پر کنٹرول اور دیگر مسائل کے حل کے لیے سیاسی نظام کی تبدیلی کو ناگزیر سمجھتے ہیں اور صدارتی نظام کو ملکی مسائل کا حل قرار دیتے ہیں۔


صدارتی نظام کی حمایت کرنے والوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پارلیمانی نظامِ حکومت ناکا م ہو چکا ہے۔

(جاری ہے)

مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان لوگوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہمارا مجموعی مزاج صدارتی نظام کے قریب ہے۔ اسمیں صدر چونکہ براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے اس لیے فیصلہ سازی میں اس کے لیے مشکلات نہیں ہوتیں ۔ صدر کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اپنی کابینہ کا انتخاب صرف ارکانِ پارلیمنٹ سے کرے بلکہ وہ اپنے طور پر مختلف شعبوں کے ماہرین کو اپنی کابینہ میں شامل کر سکتا ہے ۔

یہ ایک پائیدار نظامِ حکومت ہوتا ہے کیونکہ صدر اپنی مخصوص مدت تک اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتا ہے جس سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ اس نظام میں صدر انتظامی سربراہ ہونے کی وجہ سے فیصلوں میں تاخیر نہیں ہوتی ۔ ماضی میں صدارتی نظام کے دور میں ہونے والی ترقی کی مثالیں بھی دی جاتی ہیں ۔ اس کے علاوہ اس طرزِ حکومت کے نفاذ سے سیاسی انتشار ختم ہو کر ہمیں سیاسی استحکام نصیب ہو گا۔

صدارتی نظام کی حمایت میں کہی جانے والی ان باتوں کے باوجود یہ حقائق اپنی جگہ موجود ہیں کہ یہ ایک غیر لچکدار طرز ِ حکومت ہو تا ہے اور اس میں مکمل جمہوریت کی بجائے کافی حد تک مطلق العنانیت پائی جاتی ہے جس میں جمہوریت صرف ایک کنٹرولڈشکل میں موجود ہوتی ہے۔ ویسے بھی صدارتی نظام ملک میں فوجی حکمرانوں کے دور میں نافذ رہا ۔ اس نظام میں افراد کی سیاسی تر بیت نہیں ہو پاتی ۔

صدر اور اسکے وزراء مقننہ کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتے اس لیے فرائض کی ادائیگی میں ذمہ داری کا وہ احساس ناپید ہوتا ہے جس کی ضرورت ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ پاکستا ن میں اس وقت 1973کا متفقہ آئین نافذ ہے جس کی بنیاد پارلیمانی نظامِ حکومت پر ہے ۔ یہ آئین ہمیں تقریباََ تمام مسائل کے حل کی نہ صرف بنیاد فراہم کرتا ہے بلکہ ایسا ماحول بھی پیدا کرتا ہے جس میں عوام ان مسائل سے دوچار نہ ہوں۔

ملک کو ایک مکمل اسلامی، جمہوری، فلاحی ریاست بنانے کیلئے بھر پور رہنمائی اس آئین میں موجود ہے۔ قراردادِ مقاصد سمیت متعدد ایسی دفعات شامل ہیں جو نظامِ اسلام کے نفاذ، اسلامی تعلیمات کے فروغ ، مملکت کے اعلیٰ عہدوں پر مسلم افراد کی تقرری، اسلامی اقدار کا تحفظ ، مسلمان کی مکمل تعریف، عوامی نمائندوں کی اہلیت و نا اہلیت سے متعلق ہیں۔

شق نمبر 8تا 28صرف بنیادی حقوق کی ضمانت دینے سے متعلق ہیں ۔ ہر شہری کو اس کے جان ، مال، عزت کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ صوبائی خو د مختاری کی ضمانت دی گئی اور صوبوں کے درمیان تعلق کا ر کی وضاحت کی گئی ہے۔ کرپشن کو روکنے کیلئے احتساب کا قانون اور نیب کا ادارہ موجود ہے۔ آزاد و خود مختار الیکشن کمیشن کے قیام کی ضمانت دی گئی ہے ۔ انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ کا ادارہ موجود ہے۔

یہ آزاد عدلیہ عوام کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کو اسکے دارئہ کا رمیں رہنے کی تلقین کرتی ہے ۔ عدلیہ نہ صرف آئین کی تشریح کرسکتی ہے بلکہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے منافی قانون کو کالعدم قرار دینے کا اختیار بھی رکھتی ہے ۔ سماجی برائیوں کے خاتمے اور عوام کی معاشی بہبود بنیادی ضروریاتِ زندگی اور تعلیم آسان ذرائع سے مہیا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔

تعصبات کے خاتمے اور اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔
آئین پاکستان کی مختصراََ بیان کر دہ ان خصوصیات کی روشنی میں ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ ملک میں موجود جن مسائل اور خرابیوں کا ذکر کیا جاتا ہے ان کی وجہ پارلیمانی نظامِ حکومت نہیں اور نہ ہی یہ خرابیاں صدارتی نظام یا متناسب نمائندگی سے ختم ہو سکتی ہیں ۔حقیقت ِ حال یہ ہے کہ گذشتہ سالوں میں ایک جمہوری نظام و آئین کو عوام کی فلاح و بہتری اور جمہوریت کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کی بجائے اختیارات کے غلط استعمال کے ذریعے اپنے اقتدار کو دو ام بخشنے ، کرپشن کو فروغ دینے، اداروں کو کمزور کرنے اور حکومت پر اپنی گرفت زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اورہر وہ کوشش کی گئی جس سے ملک کے تما م ادارے ایک ہی شخصیت کے زیر اثر آجائیں ۔

اس کوشش میں حکومت کو حزب اختلاف کی بھی حمایت حاصل رہی۔ ملک میں احتساب کے لیے قائم اداروں کو زیر نگیں کیا گیا اور اہم عہدوں پر اپنے پسندیدہ افراد کا تقرر کیا گیا ۔ عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو پس پشت ڈال کر اپنی پسند کے منصوبوں پرکام کیا گیا ۔ جس کا نتیجہ صورتحال کی مزید خرابی اور عوام کے ایک طبقے کی موجودہ نظام سے بیزاری کی صورت میں سامنے آیا اور اسی وجہ سے آج ایک دفعہ پھر صدارتی نظام اور ٹیکنو کریٹ حکومت کی باتیں ہونے لگی ہیں۔


حقیقت یہ ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت ایک بہترین طرز حکومت ہے اور ہمیں کسی دوسرے نظام کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اصل مسلہ قانون کی حکمرانی اور ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر اولیت دینے کا ہے۔ ہمیں غریب اور امیر اور طاقتور اور کمزور کیلئے قانون کے یکساں اطلاق کی ضرورت ہے ۔ ملک میں بہتر نظمو نسق اور کرپشن فری سوسائٹی کا قیام وقت کا اولین تقاضا بن چکا ہے تا کہ عوام کے ٹیکس سے حاصل کردہ پیسے کا استعمال عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کیلئے استعمال ہو۔

کمزور آدمی کو انصاف میسر ہو بے روزگار کو روزگار کے مواقع ملیں ۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ جمہوری کلچر کو فروغ دیا جائے۔ اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں ۔ احتساب اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کو آزاد ی سے کام کرنے کا موقع دیا جائے ۔ سیاسی پارٹیاں اپنی تطہیر کریں اہل لوگوں کو ٹکٹ جاری کریں ۔ صوبائی اور لسانی تعصبات کو ختم کیا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اہل سیاست کے نزدیک جب تک ملکی مفاد ہر چیز پر مقدم نہیں ہو گا کوئی بھی نظام کا میابی سے نہیں چل سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :