
سانحہ مشرقی پاکستان میں بھارتی کردار
جمعہ 15 دسمبر 2017

مجید غنی
تقسیم ہند کے بعد سے بھارتی حکمران اس کوشش میں تھے کہ وہ پاکستان کو انتہائی درجہ غیرمستحکم ہی نہیں بلکہ اس کے حصے بکھرے کر دیں۔
(جاری ہے)
بھارتی پراپیگنڈے، ”را“ کی کوششوں اور مجیب کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں انتخابات سے پہلے ہی ایک تشویشناک صورتحال پیدا ہو چکی تھی لوگ بہت بڑی تعداد میں عوامی لیگ کے ساتھ بھی تھے اور ایک طبقہ ان سے خوفزدہ بھی تھا۔ مارشل لاء کی گرفت بھی اس طرح مضبوط نہ تھی جیسی ہونی چاہیے تھی جو شائد وسائل کی کمی کی وجہ سے بھی ہو۔ اس لئے صورتحال کو درست کرنے کیلئے کوئی خاطرخواہ اقدامات بھی نہ کئے جا سکے۔ نظم و نسق کی حالت خراب ہوتی چلی گئی۔ تعلیمی ادارے عوامی لیگ کی سرگرمیوں کا مرکز بن گئے۔ صنعتیں بند ہو گئیں اور عوامی لیگ کے سیاسی حریف ایک طرح سے پہلے ہی شکست تسلیم کر چکے تھے۔ چنانچہ جب دسمبر 1970ء میں انتخابات ہوئے تو عوامی لیگ 162 میں سے 160 سیٹوں پر کامیاب ہوگئی اور اس کے بعد مجیب الرحمن کا اپنے چھ نکات پر اصرار بہت بڑھ گیا اور گفتگو کیلئے ہونے والی نشستیں بغیر کسی کامیابی کے ختم ہوئیں ۔
مجیب الرحمن سے بھی مقامی انتظامیہ اور صدر یحییٰ کی کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن مجموعی طور پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ چنانچہ مارچ 1971ء میں وہاں فوجی ایکشن کا فیصلہ ہوا۔ اس فیصلے کے کئی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ مقامی آبادی کے دلوں میں فوج اور مغربی پاکستان کیلئے نفرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ بہت سے لوگ نقل مکانی کرکے انڈیا چلے گئے۔ انڈیا ان کی تعداد ایک کروڑ بتاتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اور حکومتیں پاکستان کے خلاف ہو گئیں۔ بعد ازاں جب مفروروں کیلئے عام معافی کا اعلان ہوا تو اس کی آڑ میں بھارت نے تربیت یافتہ مکتی باہنی گوریلے بھی عام آبادی کے ساتھ مشرقی پاکستان داخل کر دیئے۔ اس کے علاوہ ہجرت کرکے جانے والے لوگوں کو بھی گوریلا جنگ کی تربیت دی گئی اور وہ بھی واپس آکر اپنی فوج سے برسرِپیکار ہو گئے۔ افواجِ پاکستان کو ایک چومکھی لڑائی لڑنا پڑی۔ ایک طرف وہ وسائل اور شدید افرادی کمی کا شکار تھے دوسری جانب مقامی آبادی بھی ان کے خلاف ہتھیار اٹھائے کھڑی تھی اور یہ خانہ جنگی ہر گزرتے دن کے ساتھ تشویشناک صورتحال اختیار کرتی جا رہی تھی۔ عام طور پر فوجیوں کی تعداد نوے ہزار بتائی جاتی ہے لیکن حقیقتاً جنگی فوج کی تعداد صرف 34000 تھی۔ اس خانہ جنگی اور بعد ازاں مکمل جنگ کے دوران یہ خبریں دنیا بھر میں مشہور ہوئیں کہ قریباً 3 لاکھ انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور پاکستان کو خوب بدنام کیا گیا۔ چند سال پہلے ایک بھارتی لیڈر سبھاش چندربوس کی پوتی شرمیلا بوس کی ایک کتاب منظرعام پر آئی ہے جس میں اس نے اپنی تحقیق کی بناء پر یہ بتایا ہے کہ مارے جانے والے افراد کی تعداد 50000 سے زیادہ نہیں تھی اور یاد رہے کہ بنگالیوں اور غیربنگالیوں کے درمیان بھی شدید تصادم ہوتے رہے غیرملکی اور بھارتی پراپیگنڈے میں بنگالیوں کے مارے جانے کے بارے میں شدید دروغ گوئی سے کام لیا جاتا ہے لیکن جو مظالم کے پہاڑ پاکستان کا ساتھ دینے والے بنگالیوں ، غیربنگالیوں پر ٹوٹے اس کے ذکر سے یہ مضامین خالی ہوتے ہیں۔
مارچ 1971ء کا ملٹری آپریشن شروع ہو گیا۔ ان تمام مراحل میں مجیب کو بھارت کی مکمل حمایت حاصل رہی۔ آپریشن دوران ہونے والی نقل مکانی اور مہاجرین کی آمد کو اندرا گاندھی نے اپنے حق میں خوب استعمال کیا ۔ اندراگاندھی نے ایک طرف اپنے گوریلے مشرقی پاکستان میں داخل کئے اور دوسری جانب بڑی طاقتوں بالخصوص روس، امریکہ اور ہمسایہ ممالک کے دورے کرکے پاکستان کے خلاف بین الاقوامی فضا تیار کی اور بعد ازاں مشرقی پاکستان پر مکمل حملہ کر دیا۔ اس نے پاکستان کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیا۔ تعداد میں انتہائی کم تھکی ہوئی اور وسائل کی شدید ترین کمی کا شکار افواجِ پاکستان نے اندرونی و بیرونی دشمنوں کا بھرپور مقابلہ کیا لیکن بالآخر 16 دسمبر1971ء دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے۔
یہ دن پاکستان کی تاریخ کا ایک منحوس دن ہے۔ 45 سال گزرنے کے باوجود بھی اس کا دکھ کم نہیں ہوا اور ہم نے اس سے جو سبق سیکھنا چاہیے تھا نہیں سیکھا جبکہ آج بھی اس ملک میں بھارت سے دوستی کے گن گانے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس سانحے میں ہماری اپنی بہت سی کمزوریاں، غلطیاں، کوتاہیاں شامل ہیں لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا اس سانحے میں بنیادی کردار بھارت نے ادا کیا جس نے آج تک پاکستان کو ایک آزاد ملک تسلیم نہیں کیا۔ گو آج ہم دفاعی لحاظ سے خدا کے فضل و کرم سے بہت مضبوط ہیں اور بھارت جیسا دشمن اپنی دھمکیوں اور گیدڑ بھبھکیوں کے باوجود ہم پر حملہ کرتے ہوئے 100 دفعہ سوچے گا لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ہمارے سوچنے اور عمل کرنے کی بھی ہیں۔ ہمسایوں سے اچھے تعلقات رکھنا بہت ضروری ہے لیکن کیا بنیادی مسائل کا حل اس سے زیادہ ضروری نہیں۔ آج لاکھوں کشمیری جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور اپنا حق خودارادیت مانگتے ہیں جس کا وعدہ بھارتی قیادت UNO میں کر چکی ہے لیکن اس وعدے کو 65/70 سال گزرنے کے بعد وفا نہیں کیا گیا۔ کشمیریوں کی اکثریت پاکستان سے الحاق چاہتی ہے اور حضرت قائداعظم کے فرمان کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کیا ہم اپنی شہ رگ دشمن کے ہاتھوں میں رکھ کر اس سے صلح کی پینگیں بڑھاتے چلے جائیں؟ کیا ہم سانحہٴ مشرقی پاکستان کو فراموش کر دیں ؟۔ اور کیا ہم اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کو جن میں انڈین ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے درجنوں ثبوت مل چکے ہیں نظرانداز کر دیں؟۔ یہ حکمرانوں اور نام نہاد لبرل دانشوروں کیلئے لمحہٴ فکریہ ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مجید غنی کے کالمز
-
صدارتی نظامِ حکومت کے حوالے سے بحث--- ایک نکتہ ِ نظر
پیر 24 جون 2019
-
حضرتِ ابو االا ثر حفیظ جالندھری -کچھ یادیں
جمعرات 17 جنوری 2019
-
تحریک پاکستان، سانحہ مشرقی پاکستان اور ہندو کی سازشیں
اتوار 16 دسمبر 2018
-
صدارتی نظامِ حکومت کی باتیں اور حقیقت حال
جمعرات 8 مارچ 2018
-
ابوالاثر حفیظ جالندھری کی قومی خدمات
جمعرات 21 دسمبر 2017
-
سانحہ مشرقی پاکستان میں بھارتی کردار
جمعہ 15 دسمبر 2017
-
قائدِملّت لیاقت علی خان شہید … ایک عظیم قومی رہنما
پیر 16 اکتوبر 2017
-
کیا واقعی ہمیں نئے سیاسی نظام کی ضرورت ہے؟
ہفتہ 14 اکتوبر 2017
مجید غنی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.