ابوالاثر حفیظ جالندھری کی قومی خدمات

جمعرات 21 دسمبر 2017

Majeed Ghani

مجید غنی

آج ابوالاثر حفیظ جالندھری کا یومِ وفات ہے ۔ آج ہی کے دن 21دسمبر1982ء پاکستان کے سب سے بڑے قومی شاعر اور ملک و ملّت کے بہت بڑے محسن ہم سے جدا ہو گئے۔ انہیں قدرت نے غیر معمولی شاعر انہ صلاحیتوں سے نوازا تھا جسکا اعتراف برصغیر پاک وہند ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں کیا گیا لیکن انہوں نے اپنی ان صلاحیتوں کو ملک و ملت کی خدمت کے لئے استعمال کیا۔


حفیظ صاحب کو قدرت نے صاحب فکر اور صاحب عمل بنا کر بھیجا تھا روائتی تعلیم زیادہ حاصل نہ کی اور چند جماعتوں کے بعد ہی اسے خیرباد کہہ دیا ۔ گھر کا ماحول مذہبی تھا لہٰذا بچپن ہی سے دین اسلام سے سینہ منور ہو گیا اور اسی جوشِ قلب نے انہیں شاعر بنادیا۔
حفیظ زندگی میں جہد مسلسل کے قائل تھے، چھوٹی موٹی ملازمتوں سے ابتدا کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنے ، پڑھنے اور شاعری کو جاری رکھا اور بہت کم عرصے میں نہ صرف شہرت کی بلندیوں کو چھوا بلکہ اعلیٰ مناصب پر بھی فائز رہے۔

(جاری ہے)


حفیظ کی خدمات اور کارناموں کا ذکر کیا جائے تو سب سے پہلا ذکر تاریخ اسلام کو نظم کرنے کا ہے جو ”شاہنامہ اسلام“ کے نام سے مشہور ہے۔ آپکی دوسری وجہ عظمت مصنف قومی ترانہ پاکستان ہونا ہے۔ تقریباََ سات سو سے زائد ترانوں میں سے حفیظ کے ترانے کو پاکستان کا قومی ترانہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ حفیظ نے آزاد کشمیر کا قومی ترانہ نہ صرف لکھا بلکہ اس کی دھن بھی ترتیب دی۔

قومی ترانہ پاکستان اور شاہنامہ اسلام کی تخلیق نے حفیظ کو ایک ایسے مقام کا حامل بنا دیا جو کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتا ۔
حفیظ نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مسلم لیگ کے جلسوں میں اپنی شاعری سے لوگوں کا لہو گر ماتے رہے ۔ جیسا کہ قبل ازیں لکھا جا چکا ہے کہ حفیظ نے اپنی محنت اور خداداد صلاحیتوں سے نہ صرف شہرت کی بلندیوں کو چھوا بلکہ اعلیٰ مناصب پر بھی فائز رہے۔

1946ء میں قائداعظم کے حکم پر سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دیدیا ۔ 1947ء میں ڈائریکٹر جنرل مورال آرمڈ فورسز آف پاکستان مقرر ہوئے۔ 1961ء میں ڈائریکٹر ادارہ تعمیر نو پاکستان مقرر ہوئے۔ قائداعظم حفیظ کو son کہہ کر پکارتے تھے ۔ آغاز قیام پاکستان میں حضرت قائداعظم کے حکم پر جنگِ کشمیر میں خدمات انجام دیں اور اس میں زخمی بھی ہوئے ۔ اسی طرح 1965ء کی جنگ میں اگلے مورچوں پر جا کر مجاہدین اسلام کا لہو گر ماتے رہے۔


شاہنامہ اسلام کے تصنیف کرنے کی وجہ سے غفلت میں سوئی ہوئی اپنی قوم کو اسلاف کے کارنامے یاد کروانا تھا۔ اس حوالے سے انکے عزیز ترین شاگرد و فرزند پر وفیسر حمید کوثر (مرحوم) لکھتے ہیس کہ ” حفیظ صاحب کو مسلمانوں کی اس حالت سے جھنجھناہٹ ہوتی تھی کہ وہ ذوق و شوق اور عشق و مستی سے منہ موڑ کر لذتِ طلب سے محروم ہو گئے ہیں ۔ اسلاف کے کارناموں سے لاعلم ہیں جس کے سبب ان کی حالت بدتر ہو گئی ہے۔

وہ اپنے پیارے نبیﷺ کی امت کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتے تھے اس لئے تڑپ کر کہتے ہیں :
ارادہ ہے کہ پھر ان کا لہو اک بار گرماؤں
دلِ سنگین سخن کے آتشیں تیروں سے برماؤں
سناؤں ان کو ایسے ولولہ انگیزافسانے
کرے تائید جن عقل بھی تاریخ بھی مانے
کیا فرد وسیٴ مرحوم نے اسلام کو زندہ
خدا توفیق دے تو میں کروں ایمان کو زندہ
حفیظ جالندھر ی کو پاکستان اور اسکے اساسی نظریے سے بے پناہ محبت تھی ۔

پروفیسر حمید کوثر کہتے ہیں کہ حفیظ بہت بڑی نظریاتی قوت تھے اور ملک کی نظریاتی اساس کے خلاف سازشیں کرنے والوں پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ الحاد پسند ایسے لوگ جو پاکستان کی نظریاتی سمت تبدیل کرنا چاہتے تھے حفیظ زندگی کے آخری لمحے تک انکے راستے میں چٹان کی طرح ڈٹے رہے ۔ اس راہ میں انہیں نقصان بھی اٹھانا پڑے اور انکے خلاف پراپیگنڈے کا طوفان بر پا رہالیکن ان کی استقامت میں کوئی فرق نہیں آیا۔

غیر ملکی ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کیلئے عوام میں شعور پیدا کرنے اور حکومت اور اسکے اداروں سے اس معاملے میں بے حسی ختم کرنے کیلئے کوششیں کیں ۔ اسلامی انجمنوں ، اداروں اور یتیم خانوں کو اپنی سحر بیانی کے ذریعے چندہ اکھٹا کر کے دیتے رہے۔
قوم اور ملک کیلئے حفیظ کی خدمات اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ حفیظ کو انکے شایانِ شان مقام دلایا جائے ۔

انکے کلام اور نثر پر مزید تحقیقی کام کا اہتمام کیا جائے۔ ملک کے معروف شاعر ، ادیب، استاد اور ابو الاثر حفیظ جالندھری کے انتہائی قریبی ساتھی پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے حفیظ کے کلام کو ”کلیات حفیظ “کے نام سے یکجا کر دیا ہے جو بہت بڑی قومی خدمت ہے۔ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ کلامِ حفیظ کو نصاب میں زیادہ سے زیادہ شامل کیا جائے ۔ پاکستان کی بڑی یونیورسٹی میں ”حفیظ چیر “ قائم کی جائے لاہور کی کسی بڑی سڑک کا نام حفیظ کے نام سے منسوب کیا جائے اور ہر سال یومِ حفیظ سرکاری سطح پر منایا جائے ۔ یہ ہر درد مند دل پاکستانی کے دل کی آواز بھی ہے اور حفیظ کا قوم پر حق بھی ۔ ثبوت دیا جانا چاہیے کہ ہم احسان فراموش قوم نہیں ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :