تحریک پاکستان، سانحہ مشرقی پاکستان اور ہندو کی سازشیں

اتوار 16 دسمبر 2018

Majeed Ghani

مجید غنی

16 دسمبر 1971ء کو پاکستان کو دولخت کر دیا گیا۔ اس دن پاکستانی قوم کو ایسا زخم لگا جو شائد صدیوں تک مُندمِل نہ ہو سکے۔ اپنوں کی نالائقیوں، ہوسِ اقتدار اور مشرقی حصے کو نظرانداز کرنے کی پالیسی کے ساتھ ساتھ ازلی دشمن بھارت نے اس سانحے میں جو کردار ادا کیا وہ اطہر من الشمس ہے ۔ بنیا قیادت کے کردار کا ماضی سے ابتک جائزہ لیا جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ اس نے قیام پاکستان اور بعد ازاں پاکستان کو کمزور کرنے کی کسی کوشش سے دریغ نہیں کیا۔

بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی لیڈرشپ نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔
برصغیر پاک و ہند میں جب مسلمان حضرت قائداعظم کی قیادت اور افکارِ اقبال کی روشنی میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر اپنے لئے علیحدہ وطن حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے تو بنیا لیڈر اپنی پوری سازشی ذہنیت کے ساتھ اس کوشش میں تھا کہ مسلمان اپنے لئے علیحدہ وطن نہ حاصل کر پائیں۔

(جاری ہے)

ایک طویل عرصہ پر مشتمل جدوجہد کے بعد جب 1940 میں مسلم لیگ نے قراردادِ لاہور منظور کی اس وقت کے بعد توگاندھی نے بھی اپنی بھرپور توانائیاں اس مقصد کو ناکام بنانے پر صرف کرنا شروع کر دیں اور جب برطانیہ کو جرمنی سے پے درپہ شکست ہوئی تو ایک سیاسی چال کے طور پر بھارت چھوڑدو کی مہم شروع کر دی اور یہ کہا کہ برصغیر میں ہندو اکثریت میں ہیں انہیں ہی اقتدار سونپا جائیگا۔

اسی طرح جنگِ عظیم میں ہندو لیڈر برطانیہ کی صورتحال کے مطابق چالیں چلتے رہے۔ گاندھی کہتا تھا ہندوستان کی تقسیم کرنے کی کوششیں گئو ماتا کا جسم کاٹنے کے مترادف ہیں۔ کیبنٹ مشن آزادی ِ ہندوستان کے معاملے کو سلجھانے آیا تو گاندھی اور اس گروپ نے اس کو اس طرح قابو کیا کہ اس نے تقسیم ہند ناقابل عمل قرار دیدی اور معاملات زیادہ صوبائی خودمختاری سے آگے نہ بڑھ سکے اور ہندوؤں اور انگریزوں کا گٹھ جور اپنے عروج پر رہا ایک مرحلے پر قائداعظم نے مصلحتاً اس منصوبے کو قبول بھی کرلیا لیکن بعد ازاں ہندو نیتا خود اس منصوبے سے راہِ فرار اختیار کر گئے اور کمیشن نے صوبائی خودمختاری پر مشتمل پر اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔

چنانچہ قائداعظم نے بھی اعلان کر دیا کہ ہماری مفاہمت کی کوششیں ناکام ہو گئیں چنانچہ اب پاکستان کا قیام ہی ہمارا مطالبہ ہے۔ چنانچہ بہت سارے واقعات کے بعد جن میں کلکتہ کے فسادات، عبوری حکومت کے قیام اور اس سلسلے کی کشمکش اور مسلمانوں کا قتل عام جیسے واقعات کے بعد وزیراعظم برطانیہ نے بالآخر ہندوستان چھوڑنے کے فیصلے کا اعلان کیا اور لارڈ دیول کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو وائسرائے مقرر کر دیا جس نے بعد میں کانگریس سے مل کر مسلمانوں کے ساتھ تقسیم ہند کے معاملات میں بہت دھوکہ کیا۔


ماؤنٹ بیٹن نے مسلم دشمنی اور نہرو کے ساتھ خصوصی تعلقات کی بناء پر تقسیم میں ڈنڈی ماری۔ قدرت اللہ شہاب اپنی مشہور کتاب ”شہاب نامہ“ میں لکھتے ہیں کہ سارے ہندوستان کی حکومت کا مرکزِ اعصاب جو دہلی تھاکو بھارت کے حوالے کر دیا۔ تقسیم کے وقت حکومتِ ہند کے پاس چار ارب روپے کا کیش تھا بڑی تکرار، حجت او مول تول کے بعد پاکسان کو 75 کروڑ روپیہ دینا طے ہوا۔

بیس کروڑ روپے کی قسط ادا کرنے کے بعد بھارت نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ ان مسائل کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ تقسیم بنگال اور پنجاب تھا اس کے لئے باؤنڈری کمیشن بنا اور قرعہ فال ایک انگریز وکیل ریڈ کلف کے نام نکلا جو باؤنڈری کمیشن کا چیئرمین بنا۔ ریڈکلف کے حوالے سے بڑے پیمانے پر رشوت ہندؤں سے وصول کرنے کا الزام بھی تھا۔ ریڈ کلف نے بغیر کسی تحقیق کے کلکتہ مغربی بنگال میں شامل کر دیا۔

پنجاب کی تقسیم میں اس نے اس سے بھی زیادہ گل کھلایا۔ مسلم اکثریتی گورداسپور کو بھارت کو دے دیا۔ اس طرح بھارت کو ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ آمدورفت کا وہ راستہ مل گیا جو کسی اور طرح سے میسر نہ آسکتا تھا۔ پہلے کشمیر کو 75 لاکھ روپے میں بیچا گیا تھا اب عین ایک سوسال بعد جب فرنگیوں نے دوسری بار کشمیر ہندوؤں کے قبضہ اختیار میں دینے کی چال چلی تو اس کی بھاری قیمت بھارت سے نہیں پاکستان سے وصول کی گئی۔

گورداسپور کے راستے بھارت کشمیر کے ساتھ براہِ راست منسلک کرکے برطانیہ نے پاکستان کی نظریاتی جغرافیائی اور معاشی سرحد پر ایک تلوار لٹکا دی اور حربی نقطہ نظر سے اس نئی مملکت کو غیرمتوقع اطراف و جوانب سے بھارت کے گھیراؤ میں دھکیل دیا“۔ قدرت اللہ شہاب فیروز پور کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”مغربی پنجاب کی معاشی زندگی کو بھارت کے پنجہ اختیار میں دینے کیلئے ریڈ کلف نے گورداسپور کے نہلے پر فیروزپور کا دہلا مار دیا۔

فیروزپور میں ان نہروں کے ہیڈورکس تھے جو مغربی پنجاب کو سیراب کرتی تھیں۔ ریڈ کلف نے یہ ہیڈورکس بھی بھارت کی جھولی میں ڈال دیئے۔ آٹھ مہینے کے اندر اندر اپریل 1948ء میں بھارت نے ان نہروں کا پانی بند کرکے پاکستان کو اپنی برتری کا مزہ بھی چکھا دیا“۔
پاکستان کے وجود میں آتے ہی پاکستان کے خلاف سازشیں شروع کر دی گئیں۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان 1600 میل کا فاصلہ تھا اور تین اطراف بھارت تھا اور چوتھی طرف خلیجِ بنگال جہاں جنگ کے دنوں میں بھارتی نیوی نے ناکہ لگا لیا تھا۔


مضمون کے شروع میں سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اپنے حکمرانوں کے رویے کا بھی ذکر ہوا تھا جن کی طرف سے مشرقی پاکستان کی جائز مشکلات کو حل کرنے میں عدم دلچسپی اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے اس آگ کو ایندھن فراہم کیا گیا جو ہمارا دشمن دھیرے دھیرے ہمارے مشرقی بازو میں لگا رہا تھا۔
مشرقی پاکستان کی آبادی کل آبادی کا 56 فیصد تھی۔

سب سے پہلے ایک غلط فہمی قومی زبان کے حوالے سے پھیلی جس کو بہت زیادہ ہوا دی گئی حالانکہ اردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ خالقِ پاکستان اسمبلی نے کیا تھا جس میں بڑی نمائندگی بنگلہ بولنے والے افراد پر مشتمل تھی۔ جہاں تک معاشرتی عدم مساوات کو ہوا دیئے جانے کا تعلق ہے تو ایسے مسائل دیگر ممالک میں بھی پیدا ہو جاتے ہیں لیکن قومیں انہیں خوش اسلوبی سے حل کر لیتی ہیں۔

جبکہ مشرقی اور مغربی حصے کے درمیان بے تحاشہ غلط فہمیاں پیدا کر دی گئیں۔ یہ کام مشرقی پاکستان میں موجود انڈین لابی کے نام نہاد صحافیوں اور بنگالی اساتذہ نے انجام دیا۔ عوامی لیگ کی زیرسرپرستی چھپنے والے لٹریچر میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ پاکستان کی مجموعی آمدنی کا ساٹھ فیصد حصہ مشرقی پاکستان سے حاصل ہوتا مگر اس پر قومی آمدنی کا بیس فیصد خرچ ہوتا ہے۔

اس کے برعکس مغربی پاکستان قومی آمدنی کا چالیس فیصد کماتا ہے اور کل آمدنی کا پچھتر فیصد کھا جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں قریباً 15 فیصد ہندو تھے۔ بنگالیوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کر دی گئی کہ مغربی پاکستان تمہارا بدترین معاشی استحصال کر رہا ہے اور تمہاری پٹ سن سے حاصل ہونے والی آمدنی مغربی پاکستان میں استعمال ہو رہی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی باور کروا دیا گیا کہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی بیوروکریسی اور حکمران طبقہ تمہیں اقتدار میں تمہارا جائز مقام دینے کیلئے تیار نہیں۔

صدیوں سے غربت اور جہالت زدہ اکثریتی طبقہ اس پراپیگنڈہ کا اثر قبول کر گیا بلکہ یہی نہیں تعلیم یافتہ اور آسودہ حال لوگوں کو بھی اس پراپیگنڈہ نے جکڑ لیا۔ یہ تمام کام ہندوستان کی مکمل آشیرباد اور اس کے ایجنٹوں کے ذریعے ہو رہا تھا لیکن بدقسمتی سے اس کا توڑ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی تھی۔
تقسیم ہند کے بعد سے بھارتی حکمران اس کوشش میں تھے کہ وہ پاکستان کو انتہائی درجہ غیرمستحکم ہی نہیں بلکہ اس کے حصے بکھرے کردیئے تھے۔

اس مقصد کیلئے مجیب الرحمن اور اس کے ساتھی، کئی اشتراکی دانشور، اخبارات و جرائد اور پراپیگنڈہ مشینری اپنا کام کرنے میں مصروف تھی اور کسی بھی ایسے موقع کی تلاش میں تھے جب مشرقی پاکستان کو ملک سے الگ کیا جاسکے۔ چنانچہ مختلف پالیسیاں چلنے اور بظاہر سیاسی تحریکوں میں شرکت اور وہاں کے عوام میں اپنا مقام بنانے کے بعد مجیب الرحمن نے اپنے مشہورِ زمانہ چھ نکات کا اعلان کر دیا جن پر عمل درحقیقت ملک توڑنے یا دو علیحدہ مملکتوں کی ایک کنفیڈریشن کے مترادف ہوتا۔

مجیب کو اس حوالے سے بھارت کی درپردہ مکمل مدد حاصل تھی۔ آج کچھ لوگ مجیب کی وکالت کرتے ہوئے اسے اقتدار دینے کی حمایت کرتے نہیں تھکتے۔ ان سے گذارش ہے کہ قیام بنگلہ دیش کے کچھ عرصہ بعد مجیب الرحمن نے خود اعتراف کیا تھا کہ وہ بنگلہ دیش کے قیام کیلئے کام کر رہا تھا بلکہ اس کی صاحبزادی جو 45 سال پہلے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے سے بچانے والی تحاریک میں حصہ لینے والے عمر رسیدہ بزرگ مجاہدوں کو پھانسیوں پر چڑھا رہی ہے نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 1968 میں غالباً لندن میں اس کی اور اس کے والد کی انڈین انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ کے عہدیداروں سے ملاقات ہوئی تھی اور بنگلہ دیش کی تحریک کے معاملے پر بات چیت ہوئی۔

یہ باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ 1968ء میں بنائے جانے والے RAW کے قیام کا مقصد صرف بنگلہ دیش تحریک کی مدد کرنا اور تیز کرنا تھا۔
مجیب الرحمن سے مقامی انتظامیہ اور صدر یحییٰ کی کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن مجموعی طور پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ چنانچہ مارچ 1971ء میں وہاں فوجی ایکشن کا فیصلہ ہوا۔ اس فیصلے کے کئی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ مقامی آبادی کے دلوں میں فوج اور مغربی پاکستان کیلئے نفرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔

بہت سے لوگ نقل مکانی کرکے انڈیا چلے گئے۔ انڈیا ان کی تعداد ایک کروڑ بتاتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اور حکومتیں پاکستان کے خلاف ہو گئیں۔ بعد ازاں جب مفروروں کیلئے عام معافی کا اعلان ہوا تو اس کی آڑ میں بھارت نے تربیت یافتہ مکتی باہنی گوریلے بھی عام آبادی کے ساتھ مشرقی پاکستان داخل کر دیئے۔ اس کے علاوہ ہجرت کرکے جانے والے لوگوں کو بھی گوریلا جنگ کی تربیت دی گئی اور وہ بھی واپس آکر اپنی فوج سے برسرِپیکار ہو گئے۔

افواجِ پاکستان کو ایک چومکھی لڑائی لڑنا پڑی۔ ایک طرف وہ وسائل اور شدید افرادی کمی کا شکار تھے دوسری جانب مقامی آبادی بھی ان کے خلاف ہتھیار اٹھائے کھڑی تھی اور یہ خانہ جنگی ہر گزرتے دن کے ساتھ تشویشناک صورتحال اختیار کرتی جا رہی تھی۔ عام طور پر فوجیوں کی تعداد نوے ہزار بتائی جاتی ہے لیکن حقیقتاً جنگی فوج کی تعداد صرف 34000 تھی۔ اس خانہ جنگی اور بعد ازاں مکمل جنگ کے دوران یہ خبریں دنیا بھر میں مشہور ہوئیں کہ قریباً 3 لاکھ انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور پاکستان کو خوب بدنام کیا گیا۔

چند سال پہلے ایک بھارتی لیڈر سبھاش چندربوس کی پوتی شرمیلا بوس کی ایک کتاب منظرعام پر آئی ہے جس میں اس نے اپنی تحقیق کی بناء پر یہ بتایا ہے کہ مارے جانے والے افراد کی تعداد 50000 سے زیادہ نہیں تھی اور یاد رہے کہ بنگالیوں اور غیربنگالیوں کے درمیان بھی شدید تصادم ہوتے رہے غیرملکی اور بھارتی پراپیگنڈے میں بنگالیوں کے مارے جانے کے بارے میں شدید دروغ گوئی سے کام لیا جاتا ہے لیکن جو مظالم کے پہاڑ پاکستان کا ساتھ دینے والے بنگالیوں ، غیربنگالیوں پر ٹوٹے اس کے ذکر سے یہ مضامین خالی ہوتے ہیں۔


بھارتی پراپیگنڈے، ”را“ کی کوششوں اور مجیب کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں انتخابات سے پہلے ہی ایک تشویشناک صورتحال پیدا ہو چکی تھی لوگ بہت بڑی تعداد میں عوامی لیگ کے ساتھ بھی تھے اور ایک طبقہ ان سے خوفزدہ بھی تھا۔ مارشل لاء کی گرفت بھی اس طرح مضبوط نہ تھی جیسی ہونی چاہیے تھی جو شائد وسائل کی کمی کی وجہ سے بھی ہو۔

اس لئے صورتحال کو درست کرنے کیلئے کوئی خاطرخواہ اقدامات بھی نہ کئے جا سکے۔ نظم و نسق کی حالت خراب ہوتی چلی گئی۔ تعلیمی ادارے عوامی لیگ کی سرگرمیوں کا مرکز بن گئے۔ صنعتیں بند ہو گئیں اور عوامی لیگ کے سیاسی حریف ایک طرح سے پہلے ہی شکست تسلیم کر چکے تھے۔ چنانچہ جب دسمبر 1970ء میں انتخابات ہوئے تو عوامی لیگ 162 میں سے 160 سیٹوں پر کامیاب ہوگئی اور اس کے بعد مجیب الرحمن کا اپنے چھ نکات پر اصرار بہت بڑھ گیا اور گفتگو کیلئے ہونے والی نشستیں بغیر کسی کامیابی کے ختم ہوئیں اور مارچ 1971ء کا ملٹری آپریشن شروع ہو گیا۔

ان تمام مراحل میں مجیب کو بھارت کی مکمل حمایت حاصل رہی۔ آپریشن دوران ہونے والی نقل مکانی اور مہاجرین کی آمد کو اندرا گاندھی نے اپنے حق میں خوب استعمال کیا ۔ اندراگاندھی نے ایک طرف اپنے گوریلے مشرقی پاکستان میں داخل کئے اور دوسری جانب بڑی طاقتوں بالخصوص روس، امریکہ اور ہمسایہ ممالک کے دورے کرکے پاکستان کے خلاف بین الاقوامی فضا تیار کی اور بعد ازاں مشرقی پاکستان پر مکمل حملہ کر دیا۔

اس نے پاکستان کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیا۔
تعداد میں انتہائی کم تھکی ہوئی اور وسائل کی شدید ترین کمی کا شکار افواجِ پاکستان نے اندرونی و بیرونی دشمنوں کا بھرپور مقابلہ کیا لیکن بالآخر 16 دسمبر1971ء دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے۔ یہ دن پاکستان کی تاریخ کا ایک منحوس دن ہے۔ 45 سال گزرنے کے باوجود بھی اس کا دکھ کم نہیں ہوا اور ہم نے اس سے جو سبق سیکھنا چاہیے تھا نہیں سیکھا جبکہ آج بھی اس ملک میں بھارت سے دوستی کے گن گانے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

اس سانحے میں ہماری اپنی بہت سی کمزوریاں، غلطیاں، کوتاہیاں شامل ہیں لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا اس سانحے میں بنیادی کردار بھارت نے ادا کیا جس نے آج تک پاکستان کو ایک آزاد ملک تسلیم نہیں کیا۔ گو آج ہم دفاعی لحاظ سے خدا کے فضل و کرم سے بہت مضبوط ہیں اور بھارت جیسا دشمن اپنی دھمکیوں اور گیدڑ بھبھکیوں کے باوجود ہم پر حملہ کرتے ہوئے 100 دفعہ سوچے گا لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ہمارے سوچنے اور عمل کرنے کی بھی ہیں۔

ہمسایوں سے اچھے تعلقات رکھنا بہت ضروری ہے لیکن کیا بنیادی مسائل کا حل اس سے زیادہ ضروری نہیں۔ آج لاکھوں کشمیری جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور اپنا حق خودارادیت مانگتے ہیں جس کا وعدہ بھارتی قیادت UNO میں کر چکی ہے لیکن اس وعدے کو 60/65 سال گزرنے کے بعد وفا نہیں کیا گیا۔ کشمیریوں کی اکثریت پاکستان سے الحاق چاہتی ہے اور حضرت قائداعظم کے فرمان کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔

کیا ہم اپنی شہ رگ دشمن کے ہاتھوں میں رکھ کر اس سے صلح کی پینگیں بڑھاتے چلے جائیں؟ کیا ہم مشرقی پاکستان میں ہونے والی تاریخی شکست کو بھول جائیں؟
ہمیں ہمسایوں سے جنگیں مول نہیں لینا لیکن خود کو اتنا طاقتور اور مضبوط بنانا ہے کہ آئندہ کوئی پاکستان کو میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔ آج ایک دفعہ پھر بھارت میں ایک تنگ نظر اور پاکستان دشمن حکومت برسرِاقتدار ہے جو ہمیں بین الاقوامی طور پر تنہا کرنے اور اپنی بدنامِ زمانہ ایجنسی ”را“ اور اپنی فوج کی مدد سے ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی اور ہمارے شاندار منصوبے سی پیک کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے ۔ اس لئے ہمیں بہت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :