صدارتی نظامِ حکومت کے حوالے سے بحث--- ایک نکتہ ِ نظر

پیر 24 جون 2019

Majeed Ghani

مجید غنی

آجکل ملک میں صدارتی نظام کی افادیت اور پارلیمانی نظام کی ناکامی کے حوالے سے گفتگو جاری ہے۔ صدارتی نظام کی حمایت کرنے والوں کا نقطہ نظریہ ہے کہ پارلیمانی نظام Deliver نہیں کر سکا اور ناکام ہو چکا ہے۔ مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں اس لیے ملک کو اب صدارتی نظام کی طرف لیجانا چاہیے۔ اس نظام کو ملک کے لیے سودمند قرار دینے والوں میں اہلِ قلم اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے کئی دانشور شامل ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تمام شخصیات ملک کی بہتری کے لئے ہی سوچتی ہیں اور اس حوالے سے جو چیز مناسب سمجھیں اس کو عوام تک پہنچادیتے ہیں تاکہ عوام بھی اس سے باخبر ہو جائیں۔لہذا ہر ایک کی رائے قابلِ احترام ہے۔
صدارتی نظام کے حق میں بات کرنے والی و شخصیات میں نمایاں نام معروف کالم نگار اور دانشور جناب قیوم نظامی کا ہے جنکا نقطہ نظر یہ ہے کہ انگریزوں کا نافذ کردہ حکمرانی اور غلامی پر مبنی پارلیمانی نظام عوامی اور قومی مسائل حال نہیں کر سکا لہذا اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

اس کی جگہ صدارتی نظا کی حمایت کرتے ہوئے جناب نظامی صاحب لکھتے ہیں کہ اس نظام میں چونکہ عوام صدر کو منتخب کرتے ہیں لہذا عوام کی تائید سے آئین کے مطابق نظام چلاتا ہے۔ صدارتی نظام سے جاگیرداری، اجارہ داری، ہارس ٹریڈنگ، کرپشن اور برادری ازم جیسے معاملات کا خاتمہ ہو جائیگا۔ گُڈگورنس یقینی ہو گی۔ صدارتی نظام ہمارے مزاج اور کلچر کے قریب تر ہے۔

موجودہ جمہوری اور سیاسی نظام ناکارہ اور فرسودہ ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شدید بے چینی اور مایوسی سے خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام کے تحت دس انتخابات ہو چکے۔ اس نظام نے قومی مسائل کو حل کرنے کی بجائے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ صدارتی نظام کی حمایت کرنے والے تقریباً تمام اہلِ فکر کہتے ہیں کہ یہ ایک مضبوط نظامِ حکومت ہوتا ہے جس میں صدر ایک مخصوص مدت کیلئے برسرِ اقتدار آتا ہے اور اسے اسکی مقررہ مدت سے پہلے آسانی سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔

اس لحاظ سے یہ ایک پائیدار نظامِ حکومت ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نظامِ اسلامی نظامِ حکومت کے بھی زیادہ قریب ہے۔
صدارتی نظام کی حمایت میں کہی جانے والی ان باتوں کے باوجود یہ حقائق اپنی جگہ موجود ہیں کہ یہ ایک غیر لچکدار طرِز حکومت ہوتا ہے اور اس میں مکمل جمہوریت کی بجائے کافی حد تک مطلق العنانیت پائی جاتی ہے جس میں جمہوریت صرف ایک کنٹرولڈ شکل میں موجود ہوتی ہے جبکہ پارلیمانی حکومت کو ذمہ دار حکومت بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وزارتی کونسل یا کابینہ اپنے معاملات کی انجام دہی کے ضمن میں پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے۔

اس نظام میں مقفنہ اور انتظامیہ میں مکمل طور پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اس نظام میں نہ صرف ارکانِ پارلیمنٹ کی تربیت ہوتی بلکہ عوام کی بھی سیاسی تربیت ہوتی ہے۔ جبکہ صدارتی نظام میں افراد کی سیاسی تربیت نہیں ہو پاتی۔ صدر اور اسکے وزراء چونکہ مقفنہ کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتے اس لیے فرائض کی ادائیگی مین ذمہ داری کا وہ احساس ناپید ہوتا ہے جس کی ضرورت ہے۔


آئین پاکستان 1973ءء ایک متفقہ آئین ہے جس کی بنیاد پارلیمانی نظامِ حکومت پر ہے۔ یہ آئین ہمیں تقریباً تمام مسائل کے حل کی نہ صرف بنیاد فراہم کرتا ہے بلکہ ایسا ماحول بھی پیدا کرتا ہے جس میں عوام ان مسائل سے دوچار نہ ہوں۔ ملک کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کیلئے بھرپور رہنمائی اس آئین میں موجود ہے۔ قراردادِ امقاصد سمیت متعدد ایسی دفعات شامل ہیں جو نظامِ اسلام کے نفاذ اسلامی تعلیمات کے فروغ، مملکت کے اعلیٰ عہدوں پر مسلم افراد کی تقرری، اسلامی اقدار کے تحفظ، مسلمان کی مکمل تعریف عوامی نمائندوں کی اہلیت و نااہلیت سے متعلق ہیں۔

آئین کی کم و بیش 20 شقیں صرف بنیادی حقوق سے متعلق ہیں۔ ہر شہری کو جان، مال عزت کا تحفظ دیا گیا ہے۔ صوبائی خود مختاری کی ضمانت دی گئی اور صوبوں کے درمیان تعلقِ کار کی وضاحت کی گئی ہے۔ اسی طرح کرپشن کو روکنے کیلئے احتساب کا قانون اور نیب کا ادارہ موجود ہے۔ آزاد خودمختار الیکشن کمیشن کے قیام کی ضمانت دی گئی ہے۔ انصاف کی فراہمی کیلئے عدلیہ کا آزاد ادارہ موجود ہے جو عوام کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کو اسکے دائرہ کار میں رہنے کی تلقین کرتی ہے۔

عدلیہ نہ صرف آئین کی تشریح کر سکتی ہے بلکہ اس کے بنیادی ڈھانچے کے منافی قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ سماجی برائیوں کے خاتمے، عوام کی بہبود، بنیادی ضروریاتِ زندگی اور تعلیم آسان ذرائع سے مہیا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ تعصبات کے خاتمے اور قلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔
آئین پاکستان کی مختصراً بیان کردہ خصوصیات کی روشنی میں ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ ملک میں موجود جن مسائل اور خرابیوں کا ذکر کیا جاتا ان کی وجہ پارلیمانی نظامِ حکومت نہیں اور نہ ہی یہ خرابیاں صدارتی نظام سے ختم ہو سکتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بالخصوص سابقہ دو ادوار میں ایک جمہوری نظام و آئین کو عوام کی بہتری اور جمہوریت کے فروغ کیلئے استعمال کرنے کی بجائے اختیارات کے غلط استعمال کے ذریعے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے، کرپشن کو فروغ دینے، اداروں کو کمزور کرنے اور حکومت پر اپنی گرفت زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اور ہر وہ کوشش کی گئی جس سے ملک کے تمام ادارے ایک ہی شخصیت کے زیرِ اثر آجائیں۔

بدقسمتی سے اس کوشش میں حکومت کو حزبِ اختلاف کی در پروہ اور ظاہری بھرپور حمایت حاصل رہی جس نے صورتِ حال کے بگاڑ میں اہم کردار ادا کیا۔ ملک میں احتساب کے لیے قائم اداروں کو زیرنگیں کیا گیا اور اہم عہدوں پر پسندیدہ افراد کا تقرر کیا گیا۔ عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو پس پشت ڈال کر اپنی پسند کے منصوبوں پر کام کیا گیا۔ کرپشن اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔


راقم کے ذاتی خیال میں اس وقت پاکستانی معاشرے میں ویسے بھی Homogenity کی ایک بہتر فضا موجود ہے جبکہ صدارتی نظام میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہی صوبہ حکومت کر رہا ہے جس صوبے سے صدر کا تعلق ہے۔ اسکے علاوہ ہمیں یہ بات بھی مدِنظر رکھنا چاہیے کہ پارلیمانی نظام آئینِ پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے جسے تبدیل کرنا مشکل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پارلیمانی نظام ایک بہترین طرزِ حکومت ہے اور ہمیں کسی دوسرے نظام کی ضرورت نہیں۔

اصل مسئلہ قانون کی حکمرانی اور ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر اولیت دینے کا ہے۔ ہمیں غریب اور امیر اور طاقتور اور کمزور کیلئے قانون کے یکساں اطلاق کی ضرورت ہے۔ ملک میں بہتر نظم ونسق اور کرپشن فری سوسائٹی کا قیامِ وقت کا اولین تقاضا بن چکا ہے تاکہ عوام کے ٹیکس سے حاصل کردہ پیسے کا استعمال عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کے لیے ہو۔ آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل ہو۔ کمزور اور عام آدمی کو انصاف اور روزگار کے مواقع میسر ہوں۔ سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ جب تک اہل سیاست کے نزدیک ملکی مفاد ہر چیز پر مقدم نہیں ہوگا کوئی بھی نظام کامیابی سے نہیں چل سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :