مار نہیں پیار ۔ ( ایک آپ بیتی )

جمعرات 1 جولائی 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

مجھے آج بھی اپنے سکول کا پہلا  دِن  یاد ہے جب میرے والد صاحب مجھے سکول چھوڑنے  گئے ۔ میرے والد صاحب  ڈاکٹر  ہیں ۔ والد صاحب  کی  جاب اور اُنکی  میڈیکل پریکٹس کی  وجہ سے ہم تقریباً 30 سال  پنجاب  کے ایک  شہر بوریوالہ  میں  رہائش  پذیر رہے ۔ وہ سکول جہاں  میرا ایڈمیشن کروایا  گیا ، بوریوالہ  شہر میں اس وقت کے چند انگلش میڈیم سکولز  میں سے ایک تھا۔

  جو آج بھی  قائم  ہے ۔
بچپن  سے میں  کافی شرارتی تھا میں  نے بوریوالہ  کے اس انگلش میڈیم سکول میں  پانچویں  تک تعلیم حاصل  کی ۔ صبح کو سکول اور شام کو ٹیوشن ہوتی تھی۔  شام کے وقت ہم  چار بہن  بھائیوں کو پڑھانے کے لیۓ ایک سرکاری  اردو میڈیم  ہائی سکول کے ٹیچر آتے  تھے جو کافی بوڑھے تھے لیکن بہت نفیس اور نیک انسان  تھے ۔

(جاری ہے)


عموماً انگلش میڈیم سکول میں پڑھنے والے بچوں کی اُردو کی  ہینڈ رائیٹنگ بہت خراب ہوا کرتی ہے ۔

اُس وقت میری بھی  ہینڈ رائیٹنگ میرے علاوہ کوئی نہیں پڑھ پاتا تھا ۔ لیکن میں پڑھائی  میں  کافی اچھا  تھا ۔  وہ  ٹیچر جب میری اُردو کی  ہینڈ رائیٹنگ دیکھتے تو میرے والد صاحب کو کہا کرتے “ آپکا بچہ پڑھائی  میں تو ماشاءالّٰلہ بہت اچھا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب اسکی اردو کی ہینڈ رائیٹنگ بہت گندی ہے جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ میری صلاح  مانیں تو اسے میرے سکول میں  داخل کروا دیں ۔


ایک بات آپکو بتاتا چلوں کہ  سرکاری  اردو میڈیم سکولز میں بچوں کی  ہینڈ رائیٹنگ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ۔ میرے والدین چاہتے  تھے کہ میں پانچویں کلاس تک انگلش میڈیم میں ہی پڑھوں اور پھر مجھے سرکاری  اردو میڈیم ہائی سکول میں داخل کروا دیا جاۓ ۔ جہاں ہمارے ٹیچر  پڑھاتے تھے ۔ پانچویں کلاس پاس کر لینے کے بعد پلان کے مطابق  مجھے سرکاری  اُردو میڈیم  ہائی سکول میں داخل کروا دیا گیا ۔


اُردو میڈیم سکول میں چھٹی کلاس  کا پہلا دِن  آج بھی یاد ہے وہ ماحول میرے لیۓ بالکل  نیا تھا وہاں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے  والے  بچے  تھے ۔ جس ٹیچر  کی کلاس میں  مجھے  بیٹھنا  تھا اُنکا انتخاب  میرے گھر میں پڑھانے والے  ٹیچر  نے پہلے  سے ہی کر رکھا تھا ۔ والد صاحب کو بتا رکھا تھا کہ منصور کے ٹیچر سخت ہیں لیکن آپکا بچہ وہاں ٹھیک رہے گا۔


ایک بات کی بہت خوشی تھی کہ  مجھے چھٹی جماعت کی انگلش  کی پوری کتاب زُبانی یاد تھی کیونکہ سرکاری سکولوں  میں انگلش کا سبجیکٹ چھٹی جماعت سے شروع کروایا جاتا تھا ۔ اور چھٹی جماعت میں انگلش کا پہلا سبق اے ، بی ، سی سے شروع ہوتا تھا ۔ پہلے دن میری ، میرے کلاس  ٹیچر سے ملاقات ہوئی۔ میں نے سُن رکھا تھا کہ یہ بچوں  کے ساتھ کافی سخت  ہیں ۔

یہی بات میں نے اپنے  ٹیچر سے  پہلی ملاقات میں انکی شخصیت میں  تلاش کرنی  چاہی کہ کیا واقعی  یہ ٹیچر اتنے سخت  ہیں ۔ بہرحال مجھے وہ  پہلی ملاقات میں اتنے سخت نہیں  لگے۔
لیکن میں کیا جانتا تھا کہ میری زندگی  کا بہت بُرا وقت شروع ہو چُکا ہے ۔میری اس کلاس میں مجھ سمیت بچوں کی  کُل تعداد 111 تھی ۔ یہ تعداد مجھے آج بھی یاد ہے ۔ پہلے ہی دن اپنے  ٹیچر کو انگلش کی آدھی بُک سُنا لینے کے بعد میں پوری کلاس کا مانٹیر  بنا دیا گیا ۔

دیگر ذمہ داریوں  کے علاوہ بچوں کو انگلش  کی ڈکٹیشن کروانا اور انکو چیک کرنا بھی میری ذمہ داریوں میں شامل تھا ۔
  موجودہ دَور میں بھی یہی ٹرینڈ ہے اور اُس دَور میں بھی یہی ٹرینڈ تھا کہ کلاس ٹیچر  کی کوشش اور خواہش  ہوتی تھی کہ انکی کلاس میں پڑھنے والا ہر بچہ اُس ٹیچر کے پاس سکول سے چُھٹی کے بعد ٹیوشن  بھی  پڑھے ۔ ورنہ جو بچہ اُنکے پاس ٹیوشن  نہیں  پڑھتا تھا وہ اُس  بچے کو سیدھا رُخ  نہیں  دیتے  تھے ۔

نئی  نئی کلاس تھی اُس  وقت  تو ہمارے کلاس  ٹیچر ہم  سب بچوں کے ساتھ ٹھیک  ہی رہے لیکن جیسے  جیسے  دن  گزرے ۔ ٹیچر کے دن اچھے اور ہم بچوں کے دِن بُرے  ہونے  لگے ۔
ٹیچر کے اچھے دن اس لیۓ شروع ہو گئے کیونکہ  وہ بچوں کو مارنے  کا  بہانہ ڈھونڈتے اور کسی نہ کسی بات پر بہانے سے مارنے  لگتے ۔ اُنکو  مارنے  کا  ایک  نشہ  تھا اور وہ بچوں کو مارتے جاتے  تھے اور ہنستے جاتے تھے انکے چہرے میں ایک وحشت ہوتی  تھی جو میں  بیان  نہیں کر سکتا۔

اُنکے چہرے کی وحشت  میں  آج تک نہیں  بھُولا۔ مجھے بہت  کم مار  پڑی بلکہ  نہ ہونے کے برابر ۔ اُسکی وجہ  میرے والد  صاحب  تھے ۔ ٹیچر نے  مجھے ہاتھ  نہ لگا کر ہی عافیت  جانی ۔ حالانکہ  میرے والد صاحب نے  میرے  ٹیچر  کو مجھے  ہاتھ  لگانے سے  منع نہیں کیا تھا لیکن ٹیچر نے اپنے طور پر بھی  مجھے کم  ہی  ہاتھ لگایا ۔
باقی بچوں کے ساتھ ٹیچر  کا رویہ انتہائی  وحشیانہ  تھا میری  یہ سٹوری حقیقت پر مبنی  ہے اور اس میں کسی قسم  کا مرچ  مصالحہ  نہیں لگایا جا رہا ۔

میرے لیۓ اس سکول میں خصوصاً اس  ٹیچر کے پاس پڑھنا ایک بالکل  نیا تجربہ  تھا۔ ٹیچر نے بچوں کو مارنے کے مختلف طریقے اختیار کر رکھے تھے ۔
ان دنوں تانگوں کا زمانہ تھا ۔ گھوڑوں  کو مارنے  کے  لیۓ کوچوان “ چھانٹے “ کا استعمال  کرتے  تھے چھانٹا ایک خاص  قسم  کی سٹک کی مدد سے بنایا جاتا تھا سٹک  پر چھال  ہوتی تھی ۔ وہ سٹک مارکیٹ  سے باقاعدہ خرید کر بچوں کو مارنے کے لیۓ لائی  جاتی تھی اور وہ  ٹیچر خود مارکیٹ سے پسند کر کے لاتے تھے ۔

اور وہ بچوں کے ہاتھوں پر ایک خاص جگہ پر نشانہ لے کر بہت زور سے ماری جاتی تھی یا پھر بچوں کو مُرغا بنا کر انکو  پیچھے بہت زور زور سے مارا جاتا تھا کہ وہ ایک سے دو دن  تک  بیٹھ نہیں سکتے تھے ۔ مارتے  وقت بچوں کو انتہائی گندی اور غلیظ گالیاں  دی جاتی تھیں۔
دُوسرا طریقہ “ بَید “ سے مارنا تھا بَید بھی ایک گول ڈنڈے کی طرح تھا اس پر پہلے  ٹیپ  چڑھائی  جاتی تھی اور پھر اس  سے بچوں کو مارا جاتا تھا اور اگر بچے نے ہاتھ ہٹا لیا ۔

مار بھی ڈبل پڑتی تھی اور بَید اگر غلط ڈائیریکشن میں لگ جاتا تو ہاتھ خون و خون ہو جاتا تھا ۔ اور بات ٹانکے لگنے تک آ جاتی تھی ۔ انہی دنوں ٹیچر نے  مارنے کا ایک طریقہ اور ڈھونڈ لیا۔ جس  پر میں نے آواز اُٹھائی ۔ اُن دنوں سکولوں میں امتحانی گتوں کا بہت استعمال ہوتا تھا کیونکہ ہینڈ رائیٹنگ پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی ۔
بچے کی غلطی ہوتی تھی یا مارنے کے بہانے غلطی بنا دی جاتی تھی  ٹیچر نے مارنے کا نیا طریقہ  یہ نکالا کہ وہ بچے کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اُسکو اُلٹا کر لیتے اور بچے کے ہی امتحانی گتے سے اس بچے کے نازک ہاتھوں کے ناخنوں  پر اس ڈائیریکشن سے زور زور سے امتحانی  گتہ  مارتے  جیسے قصائی گوشت کاٹنے کے لیۓ  ٹوکے  کے  وار  کرتا  ہے ۔

بچے کے ناخنوں سے خون کے چھینٹے ارد گرد پھیل جاتے بچہ چیختا چِلاتا لیکن  ٹیچر اُسکو نہ چھوڑتے جب تک اُنکی  مارنے  کی ہوَس  ختم  نہ ہو جاتی ۔ مجھ سمیت بچے  ذہنی مریض  بن  گئے  تھے ۔
جیسا کہ  میں  نے اوپر  بیان کیا کہ میں بچوں کو انگلش  کی  ڈکٹیشن کروایا کرتا تھا۔ بچے میری مِنت سماجت  کرتے  بیچارے رشوت  بھی دینے  کی  کوشش  کرتے کہ میرا پین لے لو یا مجھ سے پانچ روپے یا دَس  روپے  لے لو لیکن  ہماری غلطیوں کو ٹھیک کر دو ۔

مجھے اُن  پر  بہت ترس  آتا اور  میری بھی  بغیر رشوت لیۓ کوشش  ہوتی  کہ میں خود ہی انکی  غلطیوں کو ٹھیک کر دوں لیکن  ٹیچر  بہانے  بنا بنا کر بچوں  پر ظُلم کرتے ۔
 یہ  حالات  دیکھکر  میں نے اپنے والد صاحب کو بتایا کہ ٹیچر  بچوں کے ساتھ اب ایسا سلوک کرنے لگے ہیں  والد صاحب اگلے ہی دن سکول  پہنچے ہیڈ ماسٹر صاحب سے ملے اور ہیڈ ماسٹر صاحب کی طرف سے ٹیچر کو  وارننگ دی گئی ۔

اس سے پہلے بھی والد صاحب  میرے ٹیچر کو بچوں کو ظالمانہ طریقے سے مارنے سے منع کرتے رہے تھے لیکن انکی تو یہ ایک عادت تھی ۔
کہا جاتا ہے کہ استاد قوم کا معمار ہیں ۔ یہ کیسے قوم کے معمار ہیں جو بچوں کو پڑھنے کی طرف راغب  کرنے کی بجاۓ بچوں کو سکول  سے بھاگنے  پر مجبور کر  دیتے  ہیں ۔ مجھے  آج بھی وہ وقت  یاد  ہے میری کلاس میں کچھ بچے  پڑھائی میں بہت اچھے  تھے جو  ٹیچر کے ظلم  کی  وجہ سے سکول سے بھاگ گئے اور دوبارہ  نہیں لوٹے ۔

افسوس  کی  بات ہے انھوں نے کتابوں کو دوبارہ کبھی ہاتھ نہیں لگایا ۔ یقین مانیں ۔ 111 بچوں کی  کلاس ، ٹیچر کے ظلم کی وجہ سے سال کے اینڈ تک 29 بچوں تک محدود ہو گئی ۔
اکثریت نے کسی دوسرے سکول میں داخلہ  لے لیا اور باقیوں  نے محنت مزدوری شروع  کر دی  ۔اور کیا کرتے ۔ بچے  ذہنی طور  پر  ڈسٹرب  ہو چکے تھے ۔ مجھ پر ٹیچر نے بہت کم ہاتھ اُٹھایا لیکن اسکے باوجود بھی  میں  ذہنی طور پر کئی سال  تک  ڈسٹرب رہا۔

  آج جب میں اپنے اردگرد چھوٹے بچوں  کو خوشی  سے سکول جاتا دیکھتا ہوں اور وہ خوش ہو کر اپنے  ٹیچرز کا  بتاتے ہیں تو میں  اُن سے یہی کہتا ہوں آپ بہت خوش قسمت ہو کہ آپکے ٹیچرز بہت اچھے ہیں الّٰلہ نہ کرے کہ آپکو میرے جیسے وہ ٹیچر ملیں ۔ لیکن  اُس  ٹیچر  کے پاس پڑھنے کا ایک فائدہ  ضرور ہوا کہ  میری ہینڈ  رائیٹنگ بہت اچھی  ہو گئی ۔ لیکن بچوں کا اُنھوں  نے  بہت  نقصان کر دیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :