ہمارا میڈیا

پیر 30 اگست 2021

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

معاشرے کی تعمیر اور تخریب میں میڈیا کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ فی زمانہ میڈیا ہر شخص کی زندگی کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ اور ہر شخص میڈیا کے مختلف ذرایع کو استعمال کر کے معاشرے کے بگاڑ یا سدھار میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ ریڈیو۔ ٹی وی۔ اخبارات کے علاوہ فیس بک۔ وھاٹس ایپ۔ ٹویٹر۔ انسٹا گرام اور نہ جانے کون کون سے ایسے ذرایع ہیں جن کے ذریعے انسان اپنے خیالات دوسروں تک پہنچا رہا ہے۔

چونکہ ہمارا معاشرہ زیادہ تر کم تعلیم یافتہ اور پختہ شعور نہ رکھنے والوں پر مشتمل ہے اس لیے لوگ میڈیا کے منفی اثرات زیادہ قبول کررہے ہیں۔ انٹرٹینمنٹ کے نام پر دکھاے جانے والے اکثر تفریحی پروگراموں میں ایسے مضامین کو گلیمر سے بھرپور انداز میں فلمایا جاتا ہے جن سے رشتوں کے تقدس کی پامالی۔

(جاری ہے)

فحاشی و عریانی۔ بے ہودگی اور اخلاقی اقدار کی پامالی جیسے منفی رحجانات کی تشہیر ہوتی ہے۔

اور ان سے متاثر ہو کر ہماری نٸی نسل کے نمایندے عملی زندگی میں وہی انداز اپنا کر نقصان اٹھاتے ہیں۔ اس قسم کے موضوعات پر مبنی ان پروگراموں نے معاشرے میں رشتوں کے احترام۔ عورت کے مقام اور اعلٰی معاشرتی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
دوسری جانب مشرف دور میں ملنے والی میڈیا کی آزادی نے صحافت جیسے قابل احترام شعبے کی کارکردگی کو بھی داغدار کردیا ہے۔

اگرچہ اس آزادی کے لیے بھی ہیمرا نے قوانین و ضوابط متعین کیے لیکن چونکہ ان پر عمل نہیں کرایا گیا اس لیے بعض معاملات میں میڈیا شطر بے مہار کی طرح زیادہ ہی آزاد ہو گیا۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ کسی بھی شخص کا سوشل میڈیا پر چھوڑا ہوا کوی بھی شوشہ چند منٹوں میں بغیر تحقیق کے فارورڈ ہوتا ہوا لاکھوں کروڑوں تک پہنچ جاتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ سوشل میڈیا کے بہت سے طرم خان اس من گھڑت خبر پر اپنی آرا کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔

اور ان سب کارروایوں پر کسی قسم کا کوی چیک نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ایسا ہی کچھ حال ہمارے ٹی وی کا بھی ہو گیا ہے۔ لاتعداد خبروں کے چینلز وجود میں آنے کے بعد ریٹنگ کی ایک دوڑ شروع ہو گیی ہے۔ زیادہ ریٹنگ اور سب سے پہلے خبر بریک کرنے کی اس دوڑ میں ہمارے مختلف نیوز چینلز ہرخبر کو بغیر تحقیق کے بریکنگ نیوز کے عنوان سے چلانا شروع کردیتے ہیں۔

بعض اینکر تو ایسی خبروں پر پروگرام بھی ترتیب دے دیتے ہیں اور پھر بعد میں تردیدیں اور معزرت کرتے پھرتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال افغان سفیر کی صاحبزادی کے متعلق خبریں ہیں جس کی مشکوک حرکات کو توڑ مروڑ کر میڈیا نے ایسے پیش کیا کہ وہ مشکوک سے مظلوم بن گٸی اور دنیا بھر میں مشہور ہوگیا کہ افغان سفیر کی بیٹی پر ظلم کیا گیا۔ بعد میں آنے والی خبروں سے واضح ہوا کہ یہ تمام پروپگنڈہ پڑوسی ملک سے آنے والے ایک ٹویٹ پر مبنی تھا جس میں ایک خواجہ سرا کی تصویر کو افغان سفیر کی صاحبزادی کا نام دے کر وطن عزیز کو بدنام کرنے اور پاک افغان تعلقات مزید خراب کرنے کی نیت سے ترتیب دیا گیا تھا جس کو ہمارے میڈیا کے شیروں نے آگے بڑھ کر ھاتھوں ھاتھ لیا اور خوب اچھالا اس طرح دشمن کی کاز کو پروموٹ کیا۔


اپنے میڈیا کا مقابلہ دنیا بھر کے نیوز چینلز سے کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹرینڈ ہمارے ھاں ہی ملتا ہے کہ کہیں بھی حکومت کے خلاف کوی خبرملے تو اسکو آناً فاناً پھیلا دیا جاے۔ جبکہ دنیا بھر میں صحافی اپنے ملک کی توقیر بڑھانے کے لیے مبالغہ آرای کرتے ہیں۔ بی بی سی اور وایس آف امریکہ اپنے ملک کے اچھے امیج کو ابھارتا ہے۔ انڈیا کا میڈیا آج تک کشمیر کے مظالم پر دہشت گردی اور انتہا پسندوں کے خلاف جنگ کا لیبل لگا کر انڈیا کو مظلوم ثابت کررہا ہے۔

اسراٸیلی میڈیا فلسطینیوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے بے تحاشہ جھوٹ اگلتا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں آزادی صحافت کے نام پر دشمنوں کے وظیفہ خوار ملک دشمنی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسے صحافیوں کی کمی نہیں جو چند ٹکوں کے عوض اپنا ضمیر فروخت کر کے دشمن کی کاز کو پروموٹ کرتے ہیں اور جواب میں متعدد بار ان سے ایوارڈز اور انعامات حاصل کرتے ہیں۔

اس قسم کے لوگ صحافت جیسے قابل احترام شعبے کے ساتھ ان صحافیوں  کے لیے بھی شرمندگی کا باعث بنتے ہیں جو اس شعبے میں صداقت اور امانت کے زریں اصولوں کی پاسداری کرتے ہوے فرایض سرانجام دے رہے ہیں۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پیمرا کے قوانین اس طرح کے ضمیر فروش نام نہاد صحافیوں کی حرکات کو لگام دینے کے لیے ناکافی ہیں؟ آخر کیوں ایسی غیر زمہ دارانہ اور افراتفری پھیلانے والی خبروں کو بنیاد بنا کر عوام کو گمراہ کرنے والوں کے خلاف کوی تادیبی کارروای نہیں کی جاتی؟ یہاں عوام پر بھی ایک بھاری ذمہ داری عاید ہوتی ہے۔

اور وہ یہ کہ کسی بھی خبر پر آنکھیں بند کر کے تسلیم کر لینے کی بجاے تحقیق کی عادت اپنایں۔ اس خبر کے پس منظر میں چھپے مقاصد کو جاننے کی کوشش کریں۔ اور نبی آخرالزمان کی اس حدیث کو یاد رکھیں کہ
 ”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پھیلا دے “( صحیح مسلم )​۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :