مفاد پرستی تباہی کی وجہ

بدھ 18 اگست 2021

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

چند واقعات پیش خدمت ہیں۔
1۔ شہر میں پولیس کا ناکہ لگا ہوا ہے۔ ہر گاڑی اور ہر موٹرسائیکل والے کو چیک کیا جارہا ہے۔ ایک کار والا ناکے کے قریب پہنچ کر گاڑی کے دونوں انڈیکٹر آن کر دیتا ہے۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ایک شخص چادر اوڑھے لیٹا ہے۔ ناکے پہ موجود پولس والا گاڑی روک کر چیک کرنے کا کہتا ہے۔ ڈرایور جیب سے 5 ہزار کا نوٹ نکال کر پولیس والے کو تھماتا ہے اور کہتا ہے کہ مریض لے کر جا رہا ہوں ایمرجنسی ہے۔

گاڑی کو بغیر چیک کیے جانے دیا جاتا ہے۔ دس منٹ بعد شہر میں کار بم دھماکہ ہو جاتا ہے جس میں کافی جانی نقصان ہوتا ہے۔ جاے وقوعہ سے وہی گاڑی تباہ شدہ حالت مں ملتی ہے۔۔۔۔۔۔
2۔ ایک گھر میں میٹر ریڈر بجلی کا میٹر چیک کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ میٹر اپنی رفتار سے کم چل رہاہے۔

(جاری ہے)

ظاہری جانچ پڑتال سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر والوں نے میٹر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کررکھی ہے۔

میٹر ریڈر گھر والوں سے بات کرتا ہے اور رپورٹ کرنے کی اطلاع دیتا ہے۔ گھر کے رہایشی میٹر ریڈر کے ھاتھ میں چند ھزار رکھ دیتا ہے۔ دوسرے دن میٹر ریڈر نیا میٹر لا کہ لگا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ مرض صرف چند اداروں یا محکموں میں لوگوں کو لاحق ہے۔ بلکہ اس مرض کے جراثیم تقریباً ہر محکمے اور ہر شعبے میں چند لوگوں میں پاے جاتے ہیں۔


 صحافت کے شعبے پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں اعلٰی کردار کے حامل صحافیوں کے ساتھ ساتھ چند ایسے صحافی بھی دکھای دیں گے جو اپنے پیشے سے انصاف نہیں کررہے۔ جن کی تحریروں اور گفت و شنید سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی مفاد کے زیر اثر بات کررہے ہیں۔ ایسے صحافی اس لیے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ عوام میں سے بہت سے ایسے لوگ جو زیادہ شعور نہیں رکھتے وہ ان کی سنسی خیز باتوں کا بہت جلد اثر لیتے ہیں۔


دیگر شعبوں کی طرح انصاف کے شعبے میں بھی ذاتی مفادات کو ترجیح دینے والے لوگ موجود ہیں۔ جو تھوڑی سی رقم کے عوض جلد انصاف کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ذاتی مفادات حاصل کرکے عوام کا استحصال کرنے والے چند عناصر شعبہ طب سے بھی منسلک ہیں ۔ یہاں یہ حضرات مریضوں کو مرض کی تشخیص کے بہانے اپنی من پسند لیبارٹریوں کے چکر لگواتے ہیں اور چند ٹکوں کے عوض علاج میں تاخیر کر کے مریضوں کو اذیت میں مبتلا کرتے ہیں۔

اسی طرح کا ماحول کچھ ہماری سیاست میں بھی ہے۔ اس میدان میں بھی چند عناصر قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفادات کی خاطر تگ و دو کررہے ہوتے ہیں۔ سیاسی میدان میں یہ بات زیادہ تشویشناک اس لیے ہو جاتی ہے کہ وہاں اس کا اثر ملک و قوم پر زیادہ آتا ہے۔ اور مفاد پرستی کا کھیل کھیلنے کے لیے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔ اس میدان کے کھلاڑی انتخابات سے قبل دولت پانی کی طرح بہاتے ہیں۔

اپنے حلقے کے عوام کو سبز باغ دکھا کر ووٹ حاصل کرتے ہیں اور پھر کامیاب ہو جانے کے بعد سب کچھ فراموش کر کے اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں ہو جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ناجایز ذرایع سے زاتی مفاد حاصل کرنے والے عناصر اب نجی اداروں اور کاروباری حلقوں میں بھی دکھای دیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی چند ویڈیوز میں ریڑھیوں پر سبزی اور فروٹ بیچنے والے چند چھوٹے کاروباری بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ناجایز طریقے سے فایدہ اٹھاتے دکھای دیتے ہیں۔

گویا وقت گزرنے کے ساتھ اس مرض میں مبتلا مریضوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بلکہ اب تو ہمارا عام آدمی بھی اس مرض میں مبتلا ہوتا جارہا ہے۔ اور  اپنا کوی جایز کام کرانے کی خاطر بھی قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجاے دو نمبر راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ہر محکمہ کے باہر ایسے ایجنٹ حضرات کی ایک فوج ظفر موج نظر آتی ہے۔ جو اضافی رقم کے عوض یہ خدمات سرانجام دے رہے ہوتے ہٕیں۔


درحقیقت یہ طریقہ کار اب اس قدر عام ہو گیا ہے کہ کہ عوام کی نظر میں یہ ناجایز رہا ہی نہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان ذرایع سے حاصل ہونے والی آمدن میں برکت نہیں ہوتی۔ رشوت لینے اور دینے والوں کو جہنمی اسی لیے قرار دیا گیا ہے کہ اس طریقے سے معاشرے میں کرپشن کو فروغ ملتا ہے۔ اور بدعنوانی یا کرپشن کے عفریت ایک مرتبہ معاشرے میں اپنے پنجے گاڑھ لیں تو پھر وہ معاشرہ بے راہ روی کی طرف چل پڑتا ہے۔

ان ذرایع سے حاصل شدہ آمدن سے پروش پانے والے بچوں سے مستقبل میں خیر کی توقع کرنا عبث ہے۔ غالباً ہمارے معاشرے کے بگاڑ کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آمدن کے ذرایع شفاف نہیں۔
ان امراض کے سدھارکی بنیادی زمہ داری تو حکومتی اداروں اور قانون نافز کرنے والوں پر عاید ہوتی ہے۔ اور اگر اس سطح پر سدھار کا جزبہ بیدار ہو تو بہت جلد مثبت نتایج آ سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہمارے تعلیمی اداروں اور مدرسوں پر بھی یہ زمہ داری عاید ہوتی ہے۔ کہ ان۔کے تعلیمی و تربیتی سلیبس میں اخلاقی سدھار کے لیے مضامین شامل کیے جایں۔
ہمارا مزہب جو کہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ھدایات موجود ہیں۔ ہماری مساجد اور دوسرے مزاہب کی عبادت گاہوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جبکہ
مسجد کا جو مقام مزہب نے متعین کیا ہے اس کو بالکل فراموش کر کے اس کو بھی صرف ایک عبادت گاہ کو درجہ دے دیا گیا ہے۔

مساجد میں اخلاقی تربیتی نشستیں کہیں شازونادر ہی منعقد ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ میڈیا ہر بھی ایسی برایوں کو مزید اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ عوام میں شعور بیدار ہو۔
یہاں یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ عوام بزات خود ان معاشرتی بیماریوں سے نجات حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ناجایز ذرایع اور شارٹ کٹ کے ذریعے اپنے روز مرہ کے کام کرانا چھوڑ دیں تو ایسے مفاد پرست اپنی موت آپ مر جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :