وزیر اعظم صاحب توجہ فرمایٸے

بدھ 25 اگست 2021

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

بجلی اور گیس دو ایسی بنیادی ضروریات ہیں جنکے بغیر زندگی گزارنا محال ہے۔ پاکستان میں بجلی کی پیداوار ایک طویل عرصہ تک مختلف ڈیموں میں پانی کی قوت سے کی جاتی رہی۔ اب بھی پیداوار کا بڑا حصہ انہی ذرایع سے حاصل ہوتا ہے تاہم دریاوں میں پانی کی کمی کے باعث فرنس آیل کے استعمال سے بھی بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ جو ایک مہنگا طریقہ ہے۔

آج کل نیوکلیر ٹیکنالوجی اور بعض دوسرے ذرایع سے بھی بجلی پیدا کی جاتی ہے۔
 جب سے ملک میں بجلی اور گیس کی فراہمی کو مختلف سپلای کمپنیوں کے حوالے کیا گیا ہے اس وقت سے جہاں صارفین کو یہ مصنوعات مہنگے داموں مہیا کی جارہی ہیں وہیں یہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ یہ کمپنیاں مختلف طریقوں سے صارفین سے اضافی رقوم بٹورنے کے نت نٸے طریقےاختیار کرتی رہتی ہیں۔

(جاری ہے)

ان کمپنیوں کے انتظامی ڈھانچے کی کمزوری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کی چوری کو کنٹرول کر کے اپنی آمدن بڑھانے کی بجاے آمدن کے اھداف پورے کرنے کے لیے صارفین کے بلوں کو کیلکولیٹ کرنے کے لیے انتہای ظالمانہ اور غیر منطقی نظام کو رایج کیے ہوے ہیں۔
ملک میں بجلی اور گیس چوری کا معاملہ کوی نٸی بات نہیں۔ ایک طویل عرصے سے ان مصنوعات کی چوری کی جا رہی ہے۔

کہیں تو یہ چوری چھپ چھپا کہ ہو رہی ہے اور کہیں اداروں کے چند ملازمین کی ملی بھگت سے یہ ناجایز کنکشن مہیا کیے جا رہے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ہر شہر میں 25 سے 30 فیصد سے زیادہ  کنکشن ایسے ہیں جو غیر قانونی طور پر لگاے گیے ہیں اور جنکی آمدن اداروں کو جانے کی بجاے چند ملازمین کی جیبوں میں جارہی ہے۔ مبینہ طور پر بڑے شہروں میں غیر قانونی کنکشن کا تناسب اس سے بھی زیادہ ہے۔

چونکہ اس بے قاعدگی کی وجہ سے کمپنیوں کی آمدن کے مطلوبہ اھداف پورے نہیں ہوتے اس لیے نقصان کو پورا کرنے کے لیے متبادل طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ جن کا اثر براہ راست صارفین کے بلوں پر آتا ہے۔
ان متبادل طریقوں میں سب سے پہلے تو بجلی کے پرانے میٹروں کو آہستہ چلنے والے میٹر قرار دے کر ان کی جگہ نیے میٹر متعارف کراے گیے۔ اور صارفین کو مجبور کیا کہ وہ نیے میٹرز لگوایں۔

جس کے بعد صارفین کے بلوں میں اچھا خاصہ اضافہ ہو گیا۔ کیونکہ نیے میٹروں نے تیز رفتاری کے ریکارڈ قایم کر دیے۔
اسی کے ساتھ دن کے مختلف اوقات میں مختلف ریٹ مقرر کر دیے۔ شام کے چند گھنٹوں کو پیک آوور قرار دے کر ان گھنٹوں کے نرخ بڑھا دیے۔ اور یہ اضافی بوجھ بھی صارفین پر آگیا۔
اس کے بعد سلیب سسٹم کو متعارف کرایا گیا۔ جو کہ ایک اور مضحکہ خیز اور غیر منطقی نظام ہے۔

جس کو سمجھنے کے لیے عام فہم زبان میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ 100 یونٹ استعمال کرنے پر تو بل 10 روپےفی یونٹ کے حساب سے بنایا جاے گا لیکن 101 یونٹ استعمال کرنے پر ریٹ 12 روپے فی یونٹ اور 202 یونٹ پر ریٹ 15 روپے فی یونٹ ہو گا۔ حساب کتاب کا یہ عجیب سا نظام صرف بجلی اور گیس مہیا کرنے والی کمپنیوں کے ھاں ہی رایج ہے۔ جبکہ ایک لیٹر پیٹرول یا دودھ خریدنے والے کو بھی اسی ریٹ ہر ادایگی کرنا ہوتی ہے جس ریٹ پر 20 لیٹر خریدنے والا کرتا ہے۔

بلکہ اکثر مصنوعات یا اجناس کی خرید و فروخت کے لیے مارکیٹ کا اصول تو یہ ہے کہ اگر خریدار کسی چیز کی زیادہ مقدار خریدے تو اسے نرخ میں رعایت ملتی ہے لیکن ان اداروں میں نرخ کے تعین کرنے کی گنگا الٹی سمت بہہ رہی ہے۔  
اسی طرح پیسے بنانے کا ایک اور طریقہ جو رایج ہے وہ یہ کہ کسی بھی صارف کا میٹر خراب ڈیکلیر کر کے گزشتہ کم سے کم چھ ماہ سے ایک سال کا جرمانہ صارف پر ڈال دیا جاتا ہے۔

جبکہ اداروں کا نمایندہ باقاعدگی سے ہر ماہ ریڈنگ چیک کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن اس کی کوتاہی کا زمہ دار بھی صارف کو قرار دے دیا جاتا ہے۔ اور صارف کو اپنا کنکشن بچانے کے لیے ہہ جرمانہ بھرنا ہی ہوتا ہے۔
آج کل ایک نیا طریقہ مشاہدے میں آ رہا ہے۔ اور وہ یہ کہ بعض علاقوں میں میٹر ریڈر ہر ماہ ریڈنگ لینے کی بجاے 35 یا 40 دن کے بعد میٹر چیک کرتا ہے۔

اس بات کی تصدیق بلوں میں میٹر کی تصویر کے ساتھ درج تاریخ سے کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح دن بڑھنے کے ساتھ ریڈنگ میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور بہت سے بل ایک سلیب سے نکل کر دوسرے سلیب میں آجاتے ہیں جس کی وجہ سے فی یونٹ ریٹ بھی بڑھ جاتا ہے۔
بجلی اور گیس جیسی بنیادی ضروریات کی عوام تک فراہمی کو یقینی بنانے والی ان کمپنیوں میں ہونے والی بہت سی مبینہ کرپشن کے براہ راست اثرات عوام پر آتے ہیں۔

اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ان معاملات کی شکایات کی کہیں شنوای نہیں ہوتی۔ کمپنیوں کے دفاتر میں شکایات درج کرانے پر اکثر یہ جواب سننے کو ملتا ہے کہ ادارے کے قوانین کے مطابق بل کی ادایگی تو صارف کو کرنا ہی ہو گی۔ اور صارف اداروں کی اجارہ داری کی وجہ سے اس ظلم کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
یہاں عوام وزیراعظم صاحب کی توجہ 2018 کی انتخابی مہم میں ان کی جماعت کی جانب سے بجلی کے بلوں پر  کیے گیے اعتراضات کی جانب دلوانے میں حق بجانب ہیں۔

اور امید رکھتے ہیں کہ انکی حکومت اس جانب توجہ دے کر عوام کو اس اضافی مالی بوجھ سے نجات دلایں گے۔  اسی کے ساتھ ساتھ متعلقہ اداروں کےزمہ داران سے سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اہنے اداروں میں موجود چند لوگوں کے غیر زمہ دارانہ رویے کی سزا عوام۔کو نہ دیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :