ہم حاضر ہیں۔۔

پیر 12 جولائی 2021

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

پاکستان پر ابھی تک فیٹف کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس بات سے تو سب واقف ہیں کہ یہ تلوار اس وجہ سے ہے کہ ملک میں دہشت گردی۔ منی لانڈرنگ اور کرپشن جیسی بیماریاں بلا روک ٹوک پھیلتی جارہی تھیں۔ یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ یہ تمام چیزیں گزشتہ ادوار حکومت میں رونما ہوتی رہیں۔
اللہ بھلا کرے گوگل کا کہ ماضی کے تمام کچے چٹھے ثبوت کے ساتھ ہمارے سامنے لے آتا ہے۔

اب یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ ہمارے ماضی کے چند حکمران ذاتی مفاد کے حصول کے لیے ہر حد سے گزر گٸے۔  ایک افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کی باگ ڈور ایسے ایسے ھاتھوں میں رہی کہ جن کا مقصد سواے دولت اکٹھا کرنے کے اور کچھ نہیں تھا۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر لوٹ مار۔ ملکی خزانے کا اپنی ذات اور اپنے خاندان والوں پر لٹانا۔

(جاری ہے)

منی لانڈرنگ۔ کرپشن یہاں تک کہ ملک کے اندر دہشت گردی کے فروغ اور دہشت گردوں کی پشت پناہی جیسے قبیح کاموں کے علاوہ بیرون ملک دشمنوں کے ساتھ گٹھ جوڑ بلکہ ذاتی مفاد کی خاطر ملکی راز تک سمگل کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔


وہ زمانہ بھی سب کو یاد ہے جب پڑوسی ملک میں سپر پاور کی قبضے کی جنگ  میں کسی بھی لالچ یا خوف کو حکمت عملی کا نام دے کر سہولتیں فراہم کی گٸیں۔ اسی قسم کی بہت سی وجوہات ہیں  جن کی وجہ سے فیٹف نے ہمیں ابھی تک گرے لسٹ پر رکھا ہوا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ فیٹف کی نگاہ بہت سے دوسرے ایسے ممالک پر نہیں پڑتی جہاں دہشت گردی۔ انسانی حقوق کی پامالی۔

بلکہ انسانی جانوں کا ضیاع جیسے سنگین جرایم  کھلے عام ہو رہے ہیں، ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم نے اپنے ملک کو اس تلوار سے چھٹکارہ دلانا ہے۔ اگرچہ گزشتہ چند سالوں سے اس سلسلے میں بہت سے مثبت اقدام لیے گٸے ہیں۔ لیکن اس کو کیا کہیے کہ ملک کے اندر بہت سے عناصر ایسے ہیں جو حکومتی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ایسے عناصر کا اس قسم کے اقدام لینے کے پیچھے مقصد صرف اقتدار کاحصول ہے۔


موجودہ حکومت کی Absolutely Not کی پالیسی نے Do More کا تقاضہ کرنے والوں کو جہاں کچھ مایوس کیا وہیں شاید ان کو یہ سوچنے ہر بھی مجبور کیا کہ علاقے میں اپنا اثر رسوخ برقرار رکھنے کے لیے کچھ متبادل بندوبست کیا جاے۔ اور اگر یہ مفروضہ درست ہے تو یقیناً وہ دوسرے آپشنز کے علاوہ اندرون ملک ایسے عناصر کی تلاش میں بھی ہوں گے جو ان کی پالیسیوں کو آگے بڑھایں۔

ماضی کی طرح اب بھی وہ پیسوں۔ اقتدار کے حصول میں معاونت اور دیگر اس قسم کی لالچ کے کارڈ استعمال کریں گے۔  
اسی دوران ملک کی ایک پارٹی کے چیٸر مین اپنے وزیراعلٰی کے ہمراہ امریکہ کے نجی دورے کا پروگرام بناے بیٹھے ہیں۔ تا دم تحریر تک کی خبروں کے مطابق کہنے کو تو یہ چھٹیاں گزارنے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ چھٹیاں اپنے دوستوں یا گھر کے افراد کے ساتھ گزارنے کی بجاے اپنے کسی ماتحت کے سنگ گزارنا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔

اور ذہن میں خیال آتا ہے کہ ایسے حالات میں یہ نجی دورہ، چہ معنی دارد؟ ذہن میں آنے والے ان خیالات کو مزکورہ وزیراعلٰی صاحب کے اس بیان میں پوشیدہ اعتماد بھی تقویت دیتا ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ عنقریب اپنے صوبے جیسی ترقی ہم پورے ملک میں لے کر آٸیں گے۔
گزشتہ روز ایک ٹاک شو میں حکومتی جماعت کی ایک خاتون نے اس سلسلے میں اظہار خیال کرتے ہوے فرمایا کہ چیرمین صاحب اپنا CV لے کر امریکہ جارہے ہیں جس کے ساتھ وہ چند مزید باتیں بھی کریں گے۔

ان تمام باتوں کے پس منظر میں دیکھا جاے تو ایسا لگتا  ہے گویا وہاں یہ یقین دھانی کرای جاے گی کہ اگر موقع ملا تو آپ کی تمام خواہشات کا احترام کیا جاے گا۔
کہنے کو تو یہ سب مفروضے ہیں اور ان مفروضوں کے درست یا غلط ہونے کا تو اس دورے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ تاہم اگر ایسا ہوا تو یہ ہمارے ملک میں اس قسم کی کوی پہلی کوشش نہیں ہوگی۔
موجودہ حکومت کی Do More کا منفی جواب دینے کی پالیسی اور حکومت مخالف جماعتوں کے ارادوں اور عدم تعاون کی پالیسی پاکستان کی بدلتی ہوی سوچ کو عملی جامہ پنانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر سکتی ہے۔

تاہم یہ تو طے ہے کہ اب عوام کو بھی کچھ حد تک اچھے برے کی پہچان ہو گٸی ہے۔ اور مستقبل کے حکمرانوں کا فیصلہ کرتے وقت ان کے ذہنوں میں بھی ہر سیاسی جماعت کے ماضی حال اور مستقبل کے پلان واضح ہوں گے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ اب ملک میں اقتدار کی تبدیلی عوامی راے کی بنیاد پر ہی ہو گی۔ اس لیے یہاں عوام کے کندھوں پر جو زمہ داری آ پڑی ہے اس سے بخوبی عہدہ برا ہونے کے لیے عوام کو نہایت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔

وطن عزیز کو اس ان دیکھی غلامی کے چنگل سے نکالنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہمارے سیاستدان بھی کسی قسم کی بیرونی لالچ یا دباو میں نہ آیں۔ اور اپنے کسی بھی قول و فعل سے ان کو یہ تأثر نہ دیں کہ آپ کی تمام خواہشوں کی تکمیل کے لیے ہم حاضر ہیں۔ کیونکہ اس آزادی کی جانب اٹھاے ہوئے یہ قدم اگر آگے نہ بڑھ سکے تو ہم ہمیشہ کے لیے غلامی کے گڑھے میں پھر سے جا گریں گے۔
جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو اس دور حکومت میں ایک ہی بات ہے جس پر عوام مطمٸن نہیں اور وہ یہ کہ عوام مہنگای کی چکی میں پس کر رہ گیے ہیں۔ حکومت اگر اس ایک نقطہ اعتراض کا حل نکال لے تو عوام کی مکمل سپورٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے اور یہ سپورٹ اس حکومت کے آٸندہ کی منصوبہ بندی کے لیے بہت معاون ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :