جمہوریت اور کھمبا !

جمعہ 27 اگست 2021

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

جمہوریت، کی جو شکل بہت سے ممالک میں رایج ہے اس میں ہر انسان کی راے کی اہمیت برابر ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک دانا اور ایک جاہل شخص کی راے برابر ہو ہی نہیں سکتی۔ جمہوریت کا نظام اسی معاشرے میں ثمر آور ہوسکتا ہے جہاں عوام کی بڑی تعداد نہ صرف خواندہ ہو بلکہ سیاسی شعور بھی رکھتی ہو۔ اور اگر معاشرہ ایسا ہو جہاں تعلیم یافتہ افراد کی شرح بہت کم ہو وہاں عوام جمہوریت کا کیا حشر کرتے ہیں آیے اس کی چند مثالوں پر نظر ڈالتے ہیں۔


١۔ بہت عرصہ گزرا پی ٹی وی سے تعلیم بالغاں کے نام سے ایک مزاحیہ ڈرامہ چلتا تھا۔ جس کی ایک قسط میں ماسٹر صاحب سے شاگردوں نے پوچھا گیا کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے۔ ماسٹر صاحب نے سمجھایا کہ جمہوریت میں اکثریت کی راے کو تسلیم کر کے اہمیت دی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

پھر مثال سے سمجھاتے ہوے شاگردوں سے پوچھا کہ بابر ہمایوں کا بیٹا تھا یا باپ۔ کچھ نے کہا بیٹا اور کچھ نے کہا باپ۔

اب ماسٹر صاحب نے بابر کو ہمایوں کا باپ کہنے والوں کو گنا تو وہ چار تھے اور بیٹا کہنے والوں کو گنا تو وہ چھ تھے بس ماسٹر صاحب نے اعلان کردیا ک جمہوری طریقے کے مطابق بابر ہمایوں کا بیٹا تھا کیونکہ یہ اکثریت کی راے ہے۔۔۔۔۔؟
٢۔ ایک انتخابی مہم کے دوران محترمہ بینظیر بھٹو مرحومہ پنجاب میں ایک جلسے سے خطاب کرنے آنے والی تھیں۔ جلسے میں موجود ایک شخص سے کسی نے سوال کیا کہ ووٹ کس کو دو گے۔

اس شخص نے فوراً جواب دیا بی بی کو۔ پوچھا گیا کیوں بی بی کو کیوں۔ اس شخص کا جواب تھا ”سوہنی لگدی اے“۔
٣۔  اسی طرح کا ایک واقعہ پنجاب کے ایک علاقے میں حالیہ ضمنی انتخاب کے دوران مشاہدے میں آیا جب ایک مشہور ٹی وی اینکر کے پوچھنے پر ایک شخص نے ن لیگ کے ایک امیدوار کا نام لے کر کہا کہ ووٹ اس کو دے گا۔ اینکر کے وجہ پوچھنے پر اس شخص کا جواب تھا کہ نواز شریف اگر کھمبے کو بھی ٹکٹ دے گا تو ہم کھمبے کو ہی ووٹ دیں گے۔

۔۔۔۔۔
یہ چند مثالیں ہماری جمہور کے سیاسی شعور کی وضاحت کرتی ہیں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ صرف یہی چند مثالیں ہیں بلکہ جب سے یہاں سیاست نے قدم جماے ہیں اس وقت سے لے کر 2018 کے عام انتخابات اور پھر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں اس قسم کی لا تعداد مثالیں سامنے آیں۔ اور واقعی بعض حلقوں میں ایسے امیدواروں کو بھی کامیابی ملی جن کی حیثیت کھمبے کی سی ہی ہے۔


لیکن ہم سب یہ جانتے ہیں کہ جس طرح جمہور کی راے کے باوجود ہمایوں بابر کا باپ نہیں ہو سکتا اسی طرح کسی کھمبے کو ووٹ دے کر اسمبلی میں بھی جگہ نہیں دی جا سکتی۔ یہی وہ نقطہ ہے جو غور طلب ہے۔ کیونکہ درحقیقت یہ جمہوریت نہیں بلکہ شخصیت پرستی ہے۔ جس کے تحت کسی شخص کی قابلیت۔ لیاقت۔ اہلیت یا صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر چناو نہیں کیا جاتا۔ وقت نے ثابت کیا کہ اس قسم کی جمہوریت نے ملک و قوم کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔

جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں جمہوریت کی جو شکل رایج ہے اس نے آج تک ملک و قوم کو نقصان  نہیں پہنچایا۔ کیونکہ وہاں کی عوام وہ شعور رکھتی ہے جو انہیں ایسے رہنماوں کے چناو میں مدد کرتا ہے جو ملک و قوم کے مفاد کی خاطر کام کرتے ہیں۔  لہٰزہ یہ کہنا غیر مناسب نہ ہو گا کہ جمہور کی راے کو اہمیت دینے سے پہلے زیادہ ضروری ہے جمہور کو اس قابل بنانا کہ جہاں وہ اپنے رہنماوں کے چناو کے لیے درست ترجیحات کو بنیاد بنایں۔

کیا ایسی جمہور کے کاندھوں پر اپنے رہنماوں کے چناو کی زمہ داری ڈالی جا سکتی ہے جن کے چناو کا معیار یہ ہو کہ ہمارا لیڈر سوہنا ہو؟
 آج 74 سال آزادی کے گزرنے کے بعد بھی ہمارے ملک میں عوام کو بنیادی ضروریات میسر نہیں۔ معصوم بچوں اور بچیوں کی جان اور عصمتوں کو تحفظ حاصل نہیں۔ قانون کا بول بالا کہیں نظر نہیں آتا۔ لوگ سرعام جرایم سرزد کر کے بھی اپنے اثر رسوخ کے بل پر آزاد گھومتے پھرتے ہیں۔

عام آدمی کا قدم قدم پر استحصال ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اسی نوعیت کی بہت سی خرابیاں ہیں جن کو لگام نہیں ڈالی جا رہی۔ کیا ان کو کنٹرول کرنے کی زمہ داری ایسے لوگوں پر عاید نہیں ہوتی جو جہور کی راے سے حکمرانی کا تاج سر پہ رکھتے ہیں؟ اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہماری جمہور کے اسی بھول پن یا لاعلمی کا فایدہ اٹھا کر آج تک ایسے لوگ ہمارے رہنما بنتے رہے ہیں جن میں سے بیشتر میں جمہور کے مسایل کو حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔


کوی زیادہ دور کی بات نہیں 2018 میں جمہور کی سب سے بڑے مسلے یعنی مہنگای کو بنیاد بنا کر تبدیلی لانے اور عوام و ملک کی حالت سدھارنے کے دعوے داروں پر یقین کرتے ہوے جمہور کی ایک بہت بڑی تعداد نے آنکھیں بند کر کے ان کی حمایت کی۔ لیکن انتخابی مہم کے دوران سواے شغل میلہ کرنے کے کسی نے ان سے یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ یہ تبدیلی آے گی کیسے؟ نہ ہی کسی نے ان سے یہ سوال کیا کہ۔


٠ جب ملکی خزانے کا ایک بڑا حصہ منی لانڈرنگ کے ذریعے وہاں پہنچا دیا گیا ہے جہاں ان لوگوں کو تحفظ میسر ہے تو آپ کے پاس کیا پلان ہے جس کے تحت آپ اس رقم کو ملک میں لایں گے اور یہ پیسہ عوام کی فلاح کے لیے استعمال کریں گے؟
٠ جب ایک طرف یہ واویلا مچا ہے کہ ملکی خزانہ خالی ہے تو بے گھر لوگوں کو گھر مہیا کرنے کے لیے سرمایہ کہاں سے آے گا؟
٠ جب ملک کے خزانے اور بجٹ کا بیشتر حصہ قرضوں کے سود کی ادایگی میں صرف ہو جاے گا تو ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے اسباب کیسے پیدا ہوں گے؟؟؟  
اگر جمہور میں اس قسم کے سوالات کرنے کا شعور ہو تو ہی جمہوریت فروغ پاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بہت سی  قوموں کے پالیسی سازوں نے جمہوری طرز حکومت کو اپنے قومی مزاج کے مطابق تبدیل کر کے اپنایا ہے اور کامیابی سے چلا رہی ہیں۔
ایران میں 12 قانونی ماہرین پر مشتمل ایک گارڈین کونسل بنای گٸی ہے جو صدارتی انتخابات سے لے کر حکومتی انتظام چلانے کے ہر پہلو پر نظر بھی رکھتی ہے اور حکومتی مشینری کو کنٹرول میں رکھنے پر بھی قادر ہے۔


امریکہ میں دو جماعتی سیاسی نظام رایج ہے  جس میں صدارتی امیدوار جماعتوں کے اندرونی نظام کے تحت منتخب ہو کر صدر کے عہدے کے لیے الیکٹورل کالج ووٹ کے سٹم تحت مقابلہ کرتے ہیں۔
دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت برطانیہ میں یہ نظام بتدریج رایج کیا گیا۔ سنہ 1215 سے نظام کی تبدیلی کا شروع ہونے والے سلسلےمیں 19 وی صدی تک ووٹ کا حق صرف محدود طبقے کو حاصل تھا۔

عام شہریوں کو حق رائے دہی حاصل نہ تھا۔ اس وجہ سے اس زمانہ میں ایک سو افراد میں سے صرف تین افراد کو ووٹ دینے کا حق تھا۔
جبکہ اس کے برعکس ہندوستان میں کھمبے کو ووٹ ڈالنے والی جمہوریت نے اس ملک کے عوام کا کیا حشر کیا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان تمام باتوں کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جمہوریت کوی ناکام نظام حکومت یے۔ بلکہ جس طرح ایک نیم حکیم مریض کو صحت یاب کرنے کی بجاے موت کے منہ میں لے جاتا ہے اسی طرح نابالغ جمہوریت بھی قوموں کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔

عوامی اقتدار کا ملک بنتے وقت چند ایسے مسایل درپیش ہوتے ہیں جنہیں حل کیے بغیر نظام کے ثمرات حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ مثلاً ملک کے لوگ کیسے ہیں۔ خواندگی کی شرح کیا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد کتنی ہے جو ووٹ کی اہمیت سے واقف ہیں۔ امیدوار ووٹ حاصل کرنے کے لیے عوام کو کیسے قایل کرتے ہیں۔ عوام کا سیاسی شعور کا لیول کیا ہے۔۔۔۔۔؟
ہمیں بھی اپنے ملک میں نظام کو تبدیل کر کے اپنانے کی ضرورت ہے۔

جس کے نتیجے میں ایسے رہنما سامنے آیں جو قوم کی درست سمت میں راہنمای کر سکیں۔ ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک اعلٰی پاے کا پالیسی ساز موجود ہے۔ جن کی پالیسیوں کو اپنا کر دوسرے ممالک ترقی کے زینے طے کررہے ہیں۔ انہی پالیسی سازوں کی صلاحیتوں کا استعمال کر کے قوم میں جمہوری شعور بیدار کرنے کے پلان بناے جاسکتے ہیں۔ اور جب تک ہمارا عام آدمی سیاسی شعور کے اس معیار تک نہیں پہنچ جاتا اس وقت تک حکمرانوں کا چناو باصلاحیت اور سیاسی سوجھ بوجھ کے حامل ارکان پر مشتمل ایک ٹیم کے ذریعے کیا جانا چاہیے اسی کےساتھ ساتھ انتہای ضروری ہے کہ سیاست کے میدان میں طبع آزمای کرنے والوں کے لیے بھی کچھ بنیادی معیار مقرر کیے جایں۔ تاکہ سیاست میں خاندانی وراثت کے رواج کا خاتمہ کا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :