لشکری زبان کا قتل عام

منگل 8 فروری 2022

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستان میں دھوم ہماری زبان کی ہے
اردو لشکری زبان کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے۔ اردو کاجنم متحدہ ہندوستان میں عسکری لشکروں سے ہوا۔ اس زمانے میں لشکروں میں سنسکرت۔ ہندی۔ پشتو۔ فارسی اور دیگر ایشیای زبانیں بولنے والوں نے جب ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات شروع کیا تو ان زبانوں کے ملاپ نے اس لشکری زبان کو جنم دیا۔

اس زبان میں قدرتی طور پر اخلاق۔ لحاظ و تمیز۔ سلیقہ۔ شایستگی اور لطافت جیسے اوصاف و آداب پیدا ہوے کیونکہ اسی کی مدد سے مختلف زبانیں بولنے والے آپس میں تبادلہ خیالات کرتے تھے۔ یہی اوصاف آج بھی ہمارے ھاں بزرگ اہل زبان کی گفت و شنید میں دکھای دیتے ہیں۔
برصغیر کی تقسیم کی دوسری بہت سی وجوہات کے ساتھ زبان بھی ایک ایسا عنصر تھا جو دوقومی نظریے کی بنیاد  بنا۔

(جاری ہے)

سرسید احمد خان نے قولاً اور عملاً ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں کرتے ہوے اپنے ادارے میں ہندو اساتزہ کو بھی موقع دیا لیکن ان کی یہ کاوشیں ہندو اساتزہ کی ہندی کو سرکاری زبان بنانے کی ضد کے آگے ناکامی سے ہمکنار ہویں۔ اس چیز نے دو قومی نظریے کو تقویت بخشی جو آگے چل کر قیام پاکستان کا باعث بنا۔
قاید اعظم کی بیشتر تقاریر میں مسلمانوں کو ہندو سے الگ قوم قرار دینے کی جو دلایل دیے ان میں معاشرت۔

تہزیب۔ عبادات۔ رہن سہن کے ساتھ الگ زبان کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا۔ 1944 میں قاید اعظم نے ایک تقریر میں زور دے کہ فرمایا کہ ہم ایک بہت بڑی آبادی کے ساتھ الگ قوم ہیں جس کی اپنی شناخت۔ تمدن۔ معاشرت۔ تہزیب۔ عبادات اور اپنی زبان ہے۔  قایداعظم کے چودہ نکات میں بارہواں نکتہ ایسے قانون کی تشکیل پہ زور دیتا ہے جو مسلمانوں کی تعلیم۔ مزہب اور زبان کے تحفظ کا بھی ضامن ہو۔


آزادی کے بعد سے ہم اردو کو ایک قومی زبان قرار دیتے آ رہے ہیں۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم یہ دعویٰ صرف زبانی جمع خرچ کے طور پہ ہی کرتے ہیں۔ اور عملاً اس پر آج تک کوی کام نہیں ہوا۔ جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بسنے والے لوگ جن کی مادری زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ان کو ملانے والی واحد کڑی اردو زبان ہی ہے۔

یہی وہ میڈیم ہے جس سے وطن عزیز کے مختلف علاقوں کے لوگ آپس میں تعلق برقرار رکھے ہوے ہیں۔ اور جس نے عوام کو ایک دوسرے سے منسلک کر رکھا ہے۔لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ آج اس عظیم الشان زبان کا درست استعمال معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری زبان اور ثقافت کومسخ کرنے میں بیرونی عوامل کا بہت بڑا ھاتھ ہے۔ گزشتہ دہایوں میں امن کی آشا جیسی تحریکوں نے ہماری ثقافت اور زبان کو بری طرح متاثر کیا۔

دوقومی نظریہ کے مخالفین اور منکرین نے یہ کام ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا جس کے مطابق مختلف ٹی وی پروگراموں اور غیر ملکی فلموں کو ہندی میں منتقل کرکے نشر کیا جاتا رہا جس کے منفی اثرات عوام پر آے اور ان کی بول چال میں لاتعداد ہندی الفاظ کی آمیزش ہو گٸی۔ اس طرح سے نہایت خاموشی سے ہماری نٸی نسل اور گھریلو خواتین کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ دونوں ممالک کے رہنے والوں کی ایک ہی زبان ہے۔

اس سازش کو ہمارے اندر بیٹھے بہت سے نمک خواروں نے بھی خوب فروغ دیا۔ عام آدمی آج بات کرتے ہوے بمشکل خالص اردو کا ایک مکمل جملہ ادا کر پاتا ہے۔ نوجوان نسل  اپنی گفتگو میں ہندی الفاظ کی آمیزش زیادہ کرتے ہیں۔ عام گفتگو میں وجہ کی بجاے کارن۔ منگنی کی جگہ سگای۔ اچھے کی بجاے سندر۔ معلومات کی بجاے جانکاری جیسے الفاظ کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں اپنی زبان کے الفاظ سے زیادہ اغیار کی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار زیادہ آسان لگتا ہے۔


دوسری جانب ہمارے بہت سے ہم وطن بھی سادہ لوحی میں غیرارادی طور پر اپنی روزمرہ کی بول چال میں بہت سے ایسے الفاظ روانی میں بول جاتے ہیں جو اردو کی چاشنی اور مٹھاس پر بری طرح اثرانداز ہوتے ہیں اور اس طرح اس زبان کا حسن مجروح ہوتا ہے۔ جبکہ کراچی اور حیدرآباد جیسے شہر جنہیں پاکستان میں اردو زبان کا گھر کہا جاتا ہے وہاں عام بولی جانے والی اردو میں بازاری الفاظ کی آمیزش نے اہل زبان حضرات کے لب و لہجے کو بھی متاثر کیا ہے۔

اور آج کی عام فہم اردو میں انگریزی اور ہندی الفاظ کی اتنی آمیزش ہو گٸی یے کہ زبان کا اپنا حسن گہنا گیا ہے۔ آج کل جو اردو ہمارے معاشرے میں مستعمل ہے اسے سن کر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر ہم اپنی قومی زبان کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کررہے ہیں۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں نصاب تعلیم۔ سرکاری اور نجی دفاتر میں۔ انگریزی زبان کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم اپنی زبان کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔

ہمارے اساتزہ کی اردو زبان میں تلفظ اور الفاظ کی ادایگی کی بے شمار غلطیاں ہمارے بچوں کو ابتدا سے ہی غلط زبان سیکھنے کی جانب راغب کررہی ہیں۔
 ذرایع مواصلات سے منسلک خواتین و اصحاب بھی سرعام تلفظ کی غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن ان کی اصلاح کی جانب  کوی توجہ نہیں دیتا۔
ہمارے ہاں ڈراموں اور دیگر تفریحی نشریات میں جس طرح کی ثقافت کی عکاسی کی جاتی ہے وہ بھی عام آدمی کو اپنی زبان سے دوری کی طرف راغب کرتی ہے۔

ایسی نشریات میں ان پڑھے لکھے لوگوں کو کامیاب زندگی گزارتے دکھایا جاتا ہے جو اپنے رہن سہن میں اغیار کی زبان اور ثقافت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
مزکورہ بالا  لاپرواہیاں جہاں اپنی قومی زبان سے ہماری لاعلمی کو ظاہر کرتی ہیں وہیں اس احساس کمتری کی غمازی بھی کرتی ہیں جو من حیث القوم ہمارے ذہنوں میں گھر کر چکی ہے۔ یہی احساس کمتری ہمیں گفت و شنید میں انگریزی اور دوسری زبانوں کے الفاظ شامل کر کے خود کو تعلیم یافتہ ثابت کرنے کی عامیانہ سی کاوش پہ مجبور کرتی ہے۔


ہمیں من حیث القوم یہ احساس اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ زبان کسی قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ یہی وہ پہلا زینہ ہے جس کو طے کر کے ہم کسی کے متعلق راے قایم کرتے ہیں اور پھر اس راے کی بنیاد پر اس سے معاملات طے کرتے ہیں۔ اور زبان سے ہی کسی شخص یا قوم کے مزاج کا معلوم ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ تمام عناصر جن کو بنیاد بنا کر ہمارے بزرگوں نے خود کو ہندو قوم سے الگ قوم قرار دیا تھا اور اسی بنیاد پر الگ ملک کے قیام پر زور دیا تھا آج انہی عناصر میں سے چند کی نفی کر کے ہم دو قومی نظریہ کی عملاً مخالفت کررہے ہیں۔ اپنے قومی تشخص کو مجروح کررہے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کا یہ قتل عام بند کریں اور اس کو وہ مقام دیں جہاں یہ ہماری قوم کی پہچان بن جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :