ہم سادگی کیوں نہیں اپناتے ؟

جمعہ 28 جنوری 2022

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

ہمارے اسلاف نے سادگی سے زندگی گزارنے کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔ جب سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کو خلیفہ نامزد کیا گیا تو ایک روز آپؓ اپنے خاندان کی کفالت کےلیے تجارت کرنے بازار جارہے تھے۔ راستے میں سیدنا حضرت عمرؓ نے دریافت فرمایا کہاں جارہے ہیں
خلیفہ اول نے کہا گھر کی ذمہ داری نبھانے بازار تجارت کے لیے جارہا ہوں.حضرت عمرؓ انھیں واپس لے آئے تمام صحابہ کو جمع کیا اور خلیفہ کے گھر کے لیے بیت المال سے وظیفہ دینے کے لیے مشاورت ہوئی جو اتفاق رائے سے منظور کر لی گئی. حضرت ابوبکر ؓ سے وظیفہ کی بابت دریافت کیا.حضرت ابوبکرصدیقؓ نے فرمایا شہر میں مزدور کی یومیہ اجرت کے برابر مقر کی جاے۔

صحابہ کرامؓ نے کہا کہ اس میں گزر بسر کیسے ممکن ہوگا؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ اگر میرا گھر اس اجرت میں نہ چل سکا تو مزدور کی اجرت بڑھادوں گا.
ایک دن اپنی زوجہؓ سے لنچ ٹائم پر سویٹ ڈِش کی فرمائش کی تو جواب ملا ، بیت المال سے جو راشن گھر آتا ہے اس میں میٹھی شے بننا مشکل ہے. کچھ دنوں کے بعد آپ کو کھانے میں سویٹ ڈِش کھجور کا حلوہ بھی ملا. استفسار پر معلوم ہوا کہ روزانہ جتنا آٹا بیت المال سے آتا تھا اس میں ایک مشت(مٹھی) بچاکر بازار میں فروخت کرنے سے یہ شیرہ تیار کیا ہے.حضرت ابوبکرصدیقؓ نے کھانے سے فراغت پاکر بیت المال کے نگران کو طلب کیا اور فرمایا آج کے بعد میرے گھر جو راشن جاتا ہے اس میں ایک مشت کمی کردو کیونکہ اس میں بھی گزارہ ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

۔۔۔ہماری تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوی ہے۔ قایداعظم کی زاتی زندگی بھی ہمارے سامنے ہے۔ جہاں وہ اپنی ذات پر اٹھنے والے
اخراجات کی ایک پای بھی سرکاری خزانے سے نہیں لیتے تھے۔ اس کے برعکس آج کے حکمرانوں اور اعلٰی عہدے داران کا معیار زندگی کیسا شاہانہ ہوتا ہے یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اگر ان اخراجات کا حساب کیا جاے تو لاکھوں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا ضیاع سامنے آے گا۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے سرکاری اعلٰی عہدے داران عام آدمی جیسا معیار زندگی کیوں نہیں اپناتے؟ ہمارے حکمران سادہ طرز زندگی کیوں اختیار نہیں کرتے؟
ہمیں آزاد ہوے 74 سال سے اوپر ہو گیے ہیں۔ آزادی کے وقت ہماری معاشی حالت یہ تھی کہ ہم پیپر پن بنانے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے تھے۔ آغاز میں دفتروں میں کیکر کے کانٹے پیپر پن کی جگہ استعمال کرتے تھے۔

پھر چشم فلک نے وہ دور بھی دیکھا جب ہم جرمنی۔ ملاٸیشیا۔ اور ایسے ہی چند دوسرے ممالک کو مالی امداد دیا کرتے تھے۔ اور آج یہ حالت ہے کہ ہمارے ملک کا بچہ بچہ قرض میں ڈوبا ہے۔ ستر فیصد سے زیادہ آبادی بنیادی ضروریات کی اشیا۔ میڈیکل کی سہولیات۔ اعلٰی تعلیم یہاں تک کہ تین وقت کی خوراک  سے محروم ہے۔ اس صورتحال کے لیے ہم سب نہایت آسانی سے اپنے حکمرانوں کو زمہ دار ٹھیرا دیتے ہیں۔

اور سابق حکمرانوں کی عیاشیوں۔ لوٹ مار اور ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دینے جیسی وجوھات قرار دے کر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں۔ اگرچہ ہماری خراب معاشی حالت کی یہ بھی وجوھات ہیں لیکن یہ بھی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اندر بحیثیت قوم یہ تمام علتیں موجود ہیں۔ ہمارا قومی کردار ایسا ہے کہ جب تک تو ہم عام آدمی ہوتے ہیں اس وقت تک مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔

دوسروں کے رویوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ دوسروں کی کارکردی میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔ لیکن جہاں ہم میں سے کوی عام آدمی کی فہرست سے نکل کر کسی عہدے پر فاٸز ہوتا ہے وہاں ہمارا دماغ ساتویں آسمان پہ پہنچ جاتا ہے۔ ہم اپنی جگہ پہ عام آدمی کے لیے فرعون اور اپنے سے بہتر پوزیشن پہ بیٹھے اشخاص کے لیے بھیگی بلی اور خوشامدی ملازم بن جاتے ہیں۔

ممبران اسمبلی۔ کابینہ میں شامل عہدے داران اور وزرا۔ گورنر صاحبان۔ اور سول سروس کے اعلٰی عہدے داران کا تو ذکر ہی کیا یہاں تو ایک گریڈ 15 یا 17 کا عہدے دار بھی خود کو VIP کی صف میں کھڑا دیکھتا ہے۔ 1600 یا 1800 سی سی گاڑی سے کم میں بغیر باوردی ڈراٸیور کے سفر کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ ایک یا دو کنال کے رقبے پہ بنے گھر سے کم پہ رہاٸش رکھنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔

گھر کے باہر باوردی گارڈ موجود نہ ہوں تو ان کی توہین ہو جاتی ہے۔ گھر میں تین چار کام کاج کرنے والے ملازمین سے کم پر راضی ہی نہیں ہوتا۔  اپنے ڈراٸنگ روم میں صوفے پہ براجمان ہوتے ہوے چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے خود زحمت کرنے کی بجاے ملازمین کو آوازیں دیتا ہے۔ اعلٰی سے اعلٰی پوشاک زیب تن کر کہ اک شان بےنیازی سے گردن اکڑا کر جب چلتا ہے تو یہ توقع کرتا ہے کہ آس پاس کے عام آدمی اسے سلام جھاڑیں۔

سرکاری خرچے پر پارٹیاں کرنا۔ سرکاری گاڑیوں کو ذاتی کاموں کے لیے استعمال کرنا اپنا حق اور بغیر پروٹوکول کے گومنے پھرنے کو اپنے لیے ذلت کا باعث سمجھتا ہے۔
مندرجہ بالا گریڈ سے اوپر کے اصحاب کو دیکھیے تو وہ تو خود کو آسمانی مخلوق اور عام آدمی کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ ان سب کی زندگی گزارنے کا انداز عام انسانوں سے بہت مختلف ہوتا ہے۔

ان تمام علتوں کی پشت پہ جہاں ہماری پست ذہنی سوچ کا دخل ہے وہیں ہمارے عام آدمی کی ازلی احساس کمتری کا بھی ھاتھ ہے۔ کیونکہ عام آدمی اس قسم کے عہدے داران اور  حکمرانوں کے سامنے ھاتھ باندھ کہ کھڑا ہونے یا عاجزی سے گفتگو کرنے کو اپنا فرض گردانتے ہیں۔ ان کا یہی رویہ ایسی اشرافیہ کے اندر احساس برتری کو فروغ دیتا ہے۔ ہمارے قایدین نے ہمیں انگریز اور ہندو سے آزاد ملک تو لے کر دے دیا لیکن وقت نے انہیں اتنی مہلت نہ دی کہ وہ ہمارے ذہنوں سے بھی غلامانہ سوچ کو کھرچ دیتے۔

یہی غلامانہ سوچ ہمیں اپنے سے کمتر کو حقیر اور اپنے سے برتر کو قابل عزت قرار دینے پہ مجبور کرتی ہے اور ہمیں اپنے سے کمتر سے خدمت کرانے اور اپنے سے برتر کی خدمت کرنے پر راغب کرتی ہے۔
موجودہ حکمرانوں نے اپنے دور حکومت کے  آغاز میں اس VIP Culture سے قوم کو  چھٹکارہ دلانے کے عزم کا اظہار کیا تھا اور سرکاری دفاتر رہاٸش گاہوں اور سرکاری تقریبات میں سادگی اختیار کرنے پر زور دیا تھا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ سب بڑہکوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔


کیونکہ گورنر صاحبان کی رہایش گاہوں میں یونیورسٹیاں تعمیر ہونے کی بجاے آج بھی عہدے داران کی دعوتوں کی تصاویر اخبارات میں شایع ہوتی رہتی ہیں۔ بہت سے سرکاری دفاتر اور رہایش گاہوں کے اخراجات کا بجٹ آج بھی ہزاروں لاکھوں میں ہوتا ہے۔ جبکہ امریکہ۔ برطانیہ۔ جرمنی۔ روس۔ چاینا۔ فرانس جیسے ملکوں کے حکمرانوں کا طرز زندگی ہمارے گورنروں اور ڈی سی صاحبان کے طرز زندگی سے بھی گیا گزرا ہے۔

ان ممالک کے حکمران عام آدمی کی طرح لاین میں کھڑے ہو کر سٹوروں پہ خریداری بھی کرتے ہیں۔ اپنے مہمانوں کی تواضع اور انہیں چاے کافی پیش کرنے کے لیے اپنے ھاتھ سے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہت کم ممالک میں آپ کو حکمرانوں یا اعلٰی عہدے داران کے لیے شاہانہ پروٹوکول دکھای دیتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان ممالک کے اکثر سابق حکمران آج اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ملازمتیں کرتے پھرتے ہیں۔

جبکہ ہمارے ھاں پتہ نہیں کہاں سے ان لوگوں کے پاس اتنی دولت آ جاتی ہے کہ ان کی نسلیں بھی عیاشیاں کرتی پھرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان بڑے ممالک کے  عوام خوشحال ہیں۔
خود کو ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے ہمیں اپنی اجتماعی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی۔ خود کو دوسروں سے برتر سمجھنا ترک کرنا ہوگا۔ سادہ طرز زندگی کو اپنانا ہو گا۔ عام آدمی اور اشرافیہ کی تفریق ختم کرنا ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :