کئی چہرے ہیں ہر ماسک کے پیچھے۔۔۔!!

منگل 3 مارچ 2020

Mazhar Iqbal Khokhar

مظہر اقبال کھوکھر

وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے حفاظتی ماسک کی قلت اور قیمتوں میں بلا جواز اضافے کے حوالے سے میڈیا پر نشر ہونے والی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی انتظامیہ اور محکمہ صحت سے رپورٹ طلب کر لی۔ اور حفاظتی ماسک کی مقررہ قیمتوں پر دستیابی یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ قیمتوں میں بلا جواز اضافے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔
یہ خبر محض خبر نہیں کہ ملک میں کرونا وائرس کے دو مریض سامنے آنے اور ممکنہ خدشے کے بعد ملک کے بعض علاقوں میں حفاظتی ماسک کی مصنوعی قلت پیدا ہوگئی اور مختلف شہروں میں ماسک کی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔

اور وفاقی اور صوبائی حکومت ماسک کی قیمتوں میں اضافے اور قلت کے حوالے سے نوٹس لینا پڑا۔ بلکہ در حقیقت یہ خبر ہمارے معاشرے کی مجموعی بے حسی کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔

(جاری ہے)

کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جسے ہمیشہ یہ گلہ رہتا ہے کہ حکمران اس قوم کے ساتھ دھوکہ کرتے ہیں، سیاستدان جھوٹے وعدے کرتے ہیں،بیوروکریسی عوام کی تذلیل کرتی ہے، عوام کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں۔

یہ تمام باتیں اپنی جگہ تلخ حقائق ہیں کہ ہمارے ہاں مروجہ سسٹم میں عوام کے ساتھ ہمیشہ دھوکہ ہوتا رہا۔ مگر سوال یہ ہے ریاست مدینہ کے خواب دیکھنے والی اس قوم کی اپنی حالت کیا ہے۔ اخلاقیات کی کس نہج پر یہ قوم پہنچی ہوئی ہے جس کا بس نہیں چلتا وہ سب سے زیادہ شریف ہے اور جس کا بس چلتا ہے وہ دوسروں کو بے بس کر دیتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر با حیثیت شہری ہماری کیا ذمہ داری ہے ہمارے اوپر بھی کوئی اخلاقیات لاگو ہوتی ہے یا نہیں۔

۔۔؟؟
رمضان المبارک آتا ہے تو ہم میں سے ہمارے تاجر اشیاء خوردنی، فروٹ، سبزیوں اور دیگر اجناس کی قیمتوں کو آگ لگا دیتے ہیں یہاں تک کہ غریب لوگ ان کے قریب بھی نہیں بھٹک سکتے۔ اب خیر سے رمضان المبارک کا مہینہ آرہا ہے یہ لوگ اللہ اللہ بھی کریں گے اور اللہ کی مخلوق کو کنگال بھی کریں گے۔ 
عیدین کے موقع پر کپڑوں جوتوں اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دی جاتی ہیں حالانکہ وہ جو غیر مسلم ہیں وہ اپنے مذہبی تہواروں میں لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اور ہم مسلمانیت کے دعوے کرنے والے انسانیت سے بھی گر جاتے ہیں۔

جب بھی جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ہم اسے غائب کر دیتے ہیں۔ جس کی ایک مثال حالیہ دنوں میں حفاظتی ماسک کی صورت میں نظر آئی۔ حالانکہ مارکیٹ میں دستیاب عام ماسک کرونا وائرس سے بچاؤ میں سود مند نہیں ہوتا مگر پھر بھی کوئٹہ سمیت ملک کے مختلف شہروں میں اس کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کی خبریں سامنے آئیں۔ اس حوالے سے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی ایک رکن اسمبلی نے قرارداد بھی جمع کرائی کہ سرجیکل ماسک کی قیمتوں کو کنٹرول اور عوام کو لوٹنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

سچ تو یہ ہے کرونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر ماسک کی قلت پیدا نہیں ہوئی بلکہ در حقیقت ہمارے چہروں پر چڑھے ماسک اترے ہیں کیونکہ اس وائرس زدہ نظام میں ہر شخص نے اپنے چہرے پر کئی کئی ماسک چڑھا رکھے ہیں ہر ماسک کا ایک نیا رنگ اور ایک نیا روپ ہے۔ عام لوگوں سے لیکر اشرافیہ تک، تاجروں سے لیکر سٹاکسٹ اور صنعت کاروں تک، چپڑاسی سے لیکر اعلی افسران تک، کارکنوں سے لیکر لیڈروں تک، سیاستدانوں سے لیکر منتخب نمائندوں تک، صحافیوں، تجزیہ کاروں، سماجی ورکرز اور مذہبی کارکنوں سمیت سب نے ایک کے اپر ایک ماسک چڑھا رکھا ہے۔

ڈاکٹرز مسیحائی کا ماسک پہن کر مریضوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز ڈیوٹی دینا توہین سمجھتے ہیں اگر ڈیوٹی دیں بھی سہی تو مریضوں سے ناروا سلوک کرتے ہیں جبکہ پرائیویٹ کلینک میں بھری بھر کم فیسوں کے ذریعے مریضوں کا علاج کم اور انہیں کنگال زیادہ کرتے ہیں۔ وکلاء قانون کے رکھوالوں کا ماسک چڑھا کر سب سے زیادہ قانون پامال کرتے ہیں وہ قانون کو سمجھتے ہیں مگر پھر بھی کچھ نہیں سمجھتے۔

سیاستدان خدمت خلق کا ماسک چڑھا کر خلق سے خدمت کراتے ہیں ،وہ ہمدردیوں کے نعرے لگا کر ہمدردی حاصل کرتے ہیں اور پھر بیدردی سے عوام کو جھٹک دیتے ہیں۔ حکومت پارلیمنٹ کی بالا دستی کا ماسک چڑھا کر سب سے زیادہ پارلیمنٹ کو بائی پاس کرتی ہے اول تو پارلیمنٹ کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی تمام فیصلے بالا بالا ہی کر لیے جاتے ہیں اور اگر کبھی پارلیمنٹ کی ضرورت پڑ بھی جائے تو اسمبلی میں یا تو صرف ہاتھ کھڑے کیے جاتے ہیں یا ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں۔

 سیاسی جماعتیں نظریات کا ماسک چڑھا کر مفادات کا کھیل کھیلتی ہیں۔ اپوزیشن کے دنوں میں تمام سیاسی جماعتیں نظریاتی کارکنوں کو استعمال کر کے عوام کی ہمدردی کا ماسک پہن لیتی ہیں اور حکومت میں آ کر سرمایہ داروں اور مفاد پرستوں کو ساتھ ملا کر ملک کے '' وسیع تر مفاد'' کا ماسک چڑھا لیتی ہیں۔
یہاں ایمانداری کا ماسک چڑھا کر بے ایمانی کی جاتی ہے۔

شرافت کا ماسک پہن کر بدمعاشی کی جاتی ہے۔ ایک نمبری کا ماسک پہن کر دو نمبری کی جاتی ہے۔ عبادت گزاری کا ماسک پہن کر گنہگاروں کو لوٹا جاتا ہے۔ تصوف کا ماسک پہن کر مریدوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ مذہب کا ماسک پہن کر سیاست کی جاتی ہے۔ الغرض ہر ماسک کا اپنا ایک رنگ روپ اور کردار ہے اور ہر کردار کی الگ ایک کہانی ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت نے کرونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر ملک میں ماسک کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لے لیا ہے مگر سوال یہ اس وائرس زدہ نظام میں جہاں طاقتور لوگوں نے لوٹ مار، کرپشن، بدیانتی، دو نمبری، ملاوٹ، بے ایمانی کے ماسک چڑھا رکھے ہیں اس کا نوٹس کون لے گا۔

۔۔؟ اور کون یہ ماسک نوچے گا۔۔؟ یہ کون۔۔۔۔۔کون۔۔؟ اسی بات کا تو آج تک جواب نہیں ملا کیونکہ یہاں ہر چہرے پر کئی ماسک ہیں اور ہر ماسک کے پیچھے کئی چہرے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :