
یقینی اور غیر یقینی
بدھ 6 مئی 2020

مظہر اقبال کھوکھر
دیہات سے تعلق رکھنے رکھنے والے ایک سادہ سے شخص کی زبان سے نکلنے والے ان الفاظ سے متاثر ہوۓ بغیر نہ رہ سکا۔
میری اس سے کوئی جان پہچان نہیں تھی وہ دوکان سے اپنی ضرورت کی کچھ چیزیں خرید رہا تھا۔ میں وہاں عمران اکبر کے ساتھ موجودہ حالات کے حوالے سے بات چیت کر رہا تھا یقینا" کورونا کا پھیلاؤ ، لاک ڈاون اور عوام کو درپیش صورتحال کے علاوہ کون سا ایسا موضوع ہے کہ جس پر بات کی جاۓ۔ کوئی صنعت کار ہے یا سرمایہ کار ، کوئی کاشتکار ہے یا زمیندار ، کوئی تاجر ہے یا دوکاندا، کوئی مزدور ہے یا ٹھیکیدار ، کوئی امیر ہے یا غریب ، کوئی کمزور ہے یا طاقتور ، کوئی تنخواہ دار ہے یا دیہاڑی دار سب کو کورونا نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔
(جاری ہے)
لاک ڈاون ختم ہو رہا ہے یا اس میں توسیع ہورہی ہے، آگے کیا ہونے جا رہا ہے کورونا کے پھیلاؤ کی کیا صورتحال ہے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے ، روزگار کا کیا ہوگا عام آدمی کی کیا حالت ہے حکومت کیا کر رہی ہے ، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کیا پالیسی ہے ، مرکز کیا چاہتا ہے اور صوبے کیا کرنا چاہتے ہیں ، سندھ اور وفاق کی کھینچا تانی کیا رخ اختیار کرتی ہے اور آنے والے دنوں میں کیا ہونے جا رہا ہر گھر اور ہر فرد کی یہ کہانی ہے یہی معاملات موضوع بحث ہیں۔
اس وقت ملک میں جہاں کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز باعث تشویش ہیں وہاں لاک ڈاون میں دی جانے والی نرمی کے دوران عوام کی غیر سنجیدگی اس سے بھی بڑھ کر تشویش ناک ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک مقامی طور پر ایک سے دوسرے شخص میں وائرس کی منتقلی میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
گو کہ حکومت کی طرف سے بار بار اس بات کا اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ کورونا کیسز میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات ہمارے تخمینوں اور اندازوں سے بہت کم ہے جوکہ باعث اطمینان ہے۔
شاید اسی بات کو لے کر حکومت اگلے چند روز لاک ڈاون مزید نرمی لانے کا باضابط فیصلہ کر چکی ہے۔
وفاقی کابینہ نے اس کی منظوری دے دی ہے ۔ اب نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر سے منظوری کے بعد باقاعدہ اعلان کیا جاۓ گا۔ 10 مئی کے بعد مارکیٹیں اور کاروبار مشروط طور پر کھولنے کی اجازت دی جاۓ گی جبکہ 10 مئی سے ہی ٹرین کا محدود آپریشن اور اندرون ملک فضائی سروس بھی شروع کی جا رہی ہے۔
یقینا" پاکستان پہلے ہی جس طرح کے معاشی حالات سے دوچار تھا اس میں اتنے طویل عرصے تک معاشی سرگرمیوں کی بندش کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے گھروں میں بیٹھے تاجروں ، صنعت کاروں اور ٹرانسپورٹروں میں بے چینی نظر آرہی ہے ملک بھر میں مختلف شہروں سے تاجروں کی زبردستی دکانیں کھولنے ، مقامی انتظامیہ سے ہاتھاپائی کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں جو کہ ایک تشویش ناک پہلو ہے۔
اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ انسانی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے مگر یہ حد ہمارے ارد گرد کے حالات اور قریب کے لوگوں کے رویے کی وجہ سے بڑھ یا کم بھی ہو سکتی ہے۔ جبکہ لاک ڈاون کے دوران نظر آنے والی عدم برداشت کی سب سے بڑی وجہ ہمارے حکمران خود اور تمام سیاسی جماعتیں ہیں کیونکہ اگر حکومت اور اپوزیشن جھوٹ موٹ کے دعؤوں کے بجاۓ عملی طور پر اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتیں۔ حکومت واضح اور ٹھوس پالیسی اپناتی اور ہر حوالے سے دو ٹوک مؤقف اختیار کیا جاتا تو لوگوں کی برداشت کا پیمانہ بڑھایا جا سکتا تھا مگر جب حکومت کی اپنی پالیسی ہی مبہم رہی ہو وفاق کہے لاک ڈاون نہیں ہو رہا صوبے لاک ڈاون کا اعلان کر رہے ہوں وفاقی اور صوبائی وزراء کے بیانات میں ہمیشہ تضاد رہا ہو سندھ اور مرکز تمام صورتحال میں ہمیشہ آمنے سامنے کھڑے نظر آتے ہوں ۔ بیانات اور تضادات کی بھرمار میں یقین اور اعتماد کی مٹی پلید ہو چکی ہو قوم کو حوصلہ دینے والوں کے اپنے حوصلے جواب دیتے نظر آتے ہوں اور سب سے بڑھ کر جب عوام کو مدد کی ضرورت ہو اور ریاست خود مدد مانگ رہی ہو تو ایک عام آدمی ، ایک مزدور ، محنت کش ، چھوٹا تاجر اور سفید پوش کتنی دیر تک برداشت کر سکتا ہے۔
مگر ان عام لوگوں کی سوچ کتنی خاص ہوتی ہے لوگ چھوٹے بڑے نہیں ہوتے بلکہ رویے لوگوں کو چھوٹا یا بڑا بناتے ہیں اس دیہاتی کے بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اس کا کہنا تھا مشکلات ضرور آئی ہیں سئیں۔۔۔۔۔ پھر بھی بہت اچھا نہ سہی مگر اچھا گزارہ ہو ہی جاتی ہے۔ لاک ڈاون سے پہلے میں مزدوری کرتا تھا سارا دن کولہو کے بیل کی طرح کام کر کے پانچ سو روپے گھر لاتا تھا مگر کبھی شکر نہیں کرتا تھا بچے 20 مانگتے میں 30 دے دیتا جہاں 100 خرچ کرنا ہوتے وہاں 130 خرچ کر دیتا۔ مگر کورونا اور لاک ڈاون نے زندگی کے ایک نئے رخ سے متعارف کرایا جس میں ایک ٹہراؤ ہے خوف ہے اور جستجو بھی مگر سب سے بڑھ کر یقین بھی ہے۔ پہلے پندرہ روز تو گھر میں بیٹھا رہا مگر جب لاک ڈاون میں کچھ نرمی ہوئی تو باہر نکلا چھوٹے موٹے محنت مزدوری کے کام ملنا شروع ہوۓ ۔ مگر سب سے بڑھ کر اس میں رب کا شکر شامل ہو گیا احساس نے آنکھ کھولی بےبسی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اب جہاں 100 کی ضرورت ہوتی ہے وہاں 80 سے گزارہ کر لیتا ہوں یہ ایک حقیقت کہ روزگار کم ہوا ہے مگر برکت زیادہ ہوگئی ہے اور یقین بھی پہلے سے کہیں زیادہ پختہ ہوگیا ہے یعنی عام آدمی یقین کے سہارے آگے بڑھ رہا ہے مگر قیادت اور سیاست آج بھی یقین سے کچھ نہیں کہ سکتی یعنی یقینی اور غیر یقینی کے درمیان الجھی ہوئی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
مظہر اقبال کھوکھر کے کالمز
-
ڈی سی لیہ اور تبدیلی
جمعرات 3 فروری 2022
-
صوبے کے نام پر سیاست
بدھ 26 جنوری 2022
-
بات تو سچ ہے۔۔۔
جمعرات 20 جنوری 2022
-
اجتماعی بے حسی کا نوحہ
بدھ 12 جنوری 2022
-
خاموش انقلاب نہیں دھاڑتا طوفان
بدھ 5 جنوری 2022
-
ایک اور سال
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
تبدیلی آنے سے پہلے جانے لگی
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
ایک اور بحران۔۔۔۔
منگل 14 دسمبر 2021
مظہر اقبال کھوکھر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.