آزادی کے بغیر جشن آزادی۔۔۔۔!!

بدھ 19 اگست 2020

Mazhar Iqbal Khokhar

مظہر اقبال کھوکھر

ابھی چند روز پہلے پاکستان کا 73واں یوم آزادی منایا گیا۔ یقینا" قوموں کی تاریخ میں 73 برس کوئی معنی نہیں رکھتے مگر قوم سے ہجوم تک کے جس سفر پر ہم نکلے ہوۓ ہیں ہمارے لیے 73 برس تو کیا 73 صدیاں بھی ناکافی ہیں جو ہمیں پھر سے قوم کی اس منزل کی طرف لوٹا سکیں جہاں سے سفر شروع کر کے انتہائی قلیل مدت میں ہم مملکت پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوۓ۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ آج دنیا کے نقشے میں پاکستان کی جو خوبصورت عمارت نظر آتی ہے اس کی بنیادوں میں ہزاروں لاکھوں قیمتی جانوں کا لہو شامل ہے اس ملک کو دنیا کے نقشے پر قائم کرنے کے لیے ظلم و  جبر اور وحشت و بربریت کے ایسے المناک سانحات نے جنم لیا کہ انسانیت کانپ اٹھتی ہے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کے بعد اس سے جڑی درد و الم ایسی خوفناک داستانیں سامنے آئیں کہ جنہیں سن کر آج بھی روح کانپ اٹھتی ہے مگر۔

(جاری ہے)

۔۔۔ ماؤں ،  بیٹیوں ، بچوں ، عورتوں ، بزرگوں کی قربانیوں ، ظلم و جبر کی داستانوں ، انتھک محنت اور سخت جدوجہد کے بعد حاصل کیے گئے اس ملک کے ساتھ ہم نے کیا کیا۔۔؟ اقبال کے خواب کی تعبیر کیا ہوئی ، تحریک پاکستان کے کارکنوں کی قربانیوں کا ثمر کیا ہوا ،  قائد کے پاکستان کا کیا ہوا اور آنکھوں میں آزادی کے خواب سجا کر موت کی وادی میں اتر جانے والوں کے خوابوں کی تعبیر کیا ہوئی۔

۔۔؟ ذرا سوچئے ! 73 برس کے بعد آج ہم کہاں کھڑے ہیں ہم نے آزادی کو کیا سمجھا ہے اور کہاں تک سمجھا ہے اور اس آزادی کی قیمت کا کیا احساس کر پاۓ ہیں ہر گزرتے برس آزادی کے مفہوم کو ہم کیا رنگ دے رہے ہیں روایتی جوش و خروش غیر روایتی دھینگا   مشتی میں آخر کیوں بدل رہا ہے۔۔۔؟ ہمارے نوجوان آخر کیا کر رہے ہیں تجدید  عہد کے دن کا تقدس آخر کیوں پامال کیا جارہا ہے۔

۔!
کیا اس کو جشن کہتے ہیں کیا ایسے منایا جاتا ہے یوم آزادی اور پھر کیا ایسی آزادی تک پہنچ گئے ہیں کہ جس کا جشن منایا جاۓ یا پھر جشن منا لینا ہی آزادی ہے سمجھ نہیں آتی شہر کی سڑکوں ہر طرف طوفان بدتمیزی برپا کر لینے کو آزادی کہتے ہیں یا  موٹر بائیک کے سیلنسر نکال آسمان سر پر اٹھا لینے کو آزادی کہتے ہیں۔ ون ویلنگ کر کے اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دینا آزادی ہے یا چوکوں چورہاؤں اور گلی کوچوں میں باجے بجا کر دوسروں کا سکون برباد کر دینا آزادی کہلاتا ہے۔

سچ تو یہ ہے یوم آزادی پر جس طرح  نوجوان سڑکوں پر نکلے ہوۓ تھے محسوس ہی نہیں ہوتا تھا یہ وہ قوم ہے جو چند روز پہلے کورونا جیسی بڑی آزمائش سے گزری ہے جس کے خوفناک اثرات اب بھی باقی ہیں مگر کسی کو کوئی احساس نہیں تھا ایک لمحے کو ایسا لگتا تھا یہ ملک آزاد ہونے کی خوشی میں نہیں نکلے بلکہ خود کو آزادی مل جانے کی وجہ سے نکلے ہیں  جیسے کسی غلام کو ایک دن کی آزادی مل جاۓ تو اسے سمجھ نہیں آتی کہ وہ اس ایک دن کو کیسے مناۓ۔


سچ تو یہ ہے ہمیں آزادی منانے سے بڑھ کر آزادی کو سمجھنے کی ضرورت ہے آزادی کے معنی اور مفہوم پر غور کرنے کی ضرورت ہے آزادی کے احساس کی ضرورت ہے اور آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کی قدر کرنے کی ضرورت ہے  اور اس آزادی کے لیے چکائی گئی قیمت کے احساس کی ضرورت ہے یقینا" اگر آزادی کی قیمت پوچھنی ہے تو ان کشمیریوں سے پوچھیں جو ستر برسوں سے آزادی کی تاریخ اپنے خون سے لکھ رہے ہیں جو نسل در نسل اس آزادی کے جدوجہد  کر رہے ہیں جن کی تیسری نسل اپنی آنکھوں میں آزادی کے  خواب سجا کر اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کا مقابلہ کر رہے ہیں جو گزشتہ ایک سال سے گھروں میں بند ہیں پوری دنیا دے کٹے ہوۓ ہیں مگر آزادی کی تڑپ لے کر ہمت اور حوصلے سے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں بےشک آزادی کی حقیقی قیمت اور قدر و منزلت صرف وہی جانتے ہیں۔


ہمارا کیا ہے ہم بزرگوں کی قربانیوں کو فراموش کر چکے ہیں اور پھر آزاد ہوکر بھی آزاد نہیں ہوۓ جتنے بھی حکمران آئے وہ ملک اور قوم کو حقیقی آزادی اور خود مختاری سے دور لے گئے۔ ذہنی و فکری غلام ، معاشی معاشرتی غلامی ، سیاسی سماجی غلامی ، مذہبی مسلکی غلامی ، الغرض جب قوم غلامی در غلامی کے چنگل میں پھنسی ہو تو اس کے رویے کیسے آزاد ہو سکتے ہیں اس کی سوچ اور فکر کیسے آزاد ہوسکتی ہے جب سوچ اور فکر آزاد نہ ہو تو پھر ایسی ہی صورتحال نظر آئے گی جو آج کل ہمیں یوم آزادی کے موقع پر دیکھنے کو ملتی ہے اور ہر گزرتے دن اور ہر آنے والے ماہ و سال ہماری ذہنی غلامی ہماری آزادی کو صلب کر رہی ہے اور ہماری نوجوان نسل عظیم قربانیوں کی یاد کے اس دن اپنے بزرگوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے بجاۓ باجے بجاتے اور شور شرابا کرتے نظر آتے ہیں جو کہ اس ریاست ، ریاستی اداروں ، درس گاہوں اور ہماری خاندانی  تربیت پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ہمیں آزادی کا جشن منانے سے پہلے آزادی کی اس منزل کے کے حصول کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی جس کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا  یقینا" جب ہماری معیشت ، تجارت ، تعلیم ، خارجہ پالیسی ، آزاد ہوگی جب ہمارے حکمران آزادانہ پالیسیاں بنائیں گے ، جب میرٹ کی بالا دستی ہوگی انصاف کا بول بالا ہوگا  عدالتوں میں آزادانہ فیصلے ہونگے ، جب پارلیمنٹ میں آزادی سے قانون سازی ہوگی تو پھر ہم آزادی مناتے ہوۓ بھی اچھے لگیں گے اور آزادی کا جشن مناتے ہوۓ بھی.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :