مشقتی کی یادیں

پیر 12 جنوری 2015

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

ہم ”مشقتیوں“کے بھی وہ دن خوب تھے جب صحافت میں ”براہمن“آٹے میں نمک کے برابراور بڑے صحافی بڑے انسان بھی ہوتے تھے ان کی جونیئرزکے لیے محبت اور شفقت آج کے دور میں نظرنہیں آتی‘صحافت میں پیسے نہیں تھے مگر خلوص اور محبت ہوتی تھی اس زمانے میں آج پیسے آگئے مگر ان سنہرے ایام کی فقط یادیں باقی ہیں ‘کچھ دن ہوئے ایک میل موصول ہوئی بلاگ میں لکھے کچھ الفاظ ایک ”براہمن“کی طبع نازک پر گراں گزرے تھے پرانے تعلق کی نسبت سے میل کا جواب دینے کی بجائے فون کرلیا پہلے تو خوب گرجے برسے توعرض کیا عالی جاہ میں نے کسی کی ذات کو ہدف تنقیدنہیں بنایا بلکہ ایک عمومی بات کی ہے لمحہ بھر کے لیے خاموشی چھا گئی کہنے لگا خوب لفظ استعمال کیا ہے”مشقتی“آج کے ممی ڈیڈی ”میڈیا مین“کو اس کی گہرائیوں میں پنہاں درداور کرب کا کیا اندازا پھر خود کلامی کے اندازمیں کہنے لگے اس دردمیں وہ مٹھاس تھی جوآج کی خوشیوں میں بھی نہیں‘جانتے ہو تمہارا بلاگ میں نے بار بار پڑھا ہے ابھی بھی کھول کر بیٹھا ہوں ‘ایک بات کہوں میں نے کہا فرمائیں کہنے لگا کسی دن کھانا اکھٹے کھائیں مگر ایک شرط ہے میں نے کہا وہ کیا کہنے لگا جگہ وہی پرانی ہوگی اور جیب میں بیس روپے سے زیادہ نہیں رکھنے اس کی آواز رندھ گئی تھی ظالم رلاگیا ‘مدتوں بعد ان آنکھوں نے بیوفائی کی‘روح کے آبلوں کو چھیڑنے کا انجام یہی ہوتا ہے ‘بیڈن روڈ پر گونگے کے کباب ‘ٹیمپل روڈپریاکوکی چائے‘پریس کلب کی دال سبزی ‘بھلا سا نام تھا پریس کلب کے کک کا جب کیفے ٹریا اس جگہ ہوا کرتا تھا جہاں آج کل انٹرنیٹ کیفے بنا ہوا ہے اپنے کام کا ایسا ماہرکہ جو کچھ بھی پکاتا تھا مجال ہے ذائقے میں فرق آجائے ہرچیزمیں ذائقہ ایک ہی ملتا تھا‘دو یا چار روپے کی دال ‘سبزی اور روٹیاں مفت مگر اتنے پیسہ بھی تو نہیں ہوتے تھے سو ادھار چلتا تھا یار لوگ کھانا کھا کر بل پر کسی اور کانام لکھوادیا کرتے تھے ‘اقبال مرحوم کلب کا منیجرہوتا تھاباغ وبہار شخصیت کا مالک شوگرکا مرض ایسا چمٹا کہ جان ہی لے لی ‘بھائیوں سے بڑھ کر تھا خود کو شاید کبھی معاف نہ کرپاؤں کہ بروقت اطلاع نہ ملنے کی وجہ سے جنازے میں شرکت نہ کرسکا‘ کسی نے کہا پریس کلب آنا کم کردیا تو میں نے کہا وہ چہرے واپس لے آؤ میں روزپریس کلب آیا کروں گا ‘ہم ”مشقتی “ان ایام میں صبح نکلتے اور رات گئے تک کام کرتے ایک دن میں درجنوں کے حساب سے اسائنمنٹس ‘پھرکلب میں بیٹھ کر گپ شپ کا دور ‘برجیس طاہرصاحب‘عزیزمظہرصاحب (مرحوم ومغفور)راجہ اورنگ زیب اور شاہدملک صاحب جیسی ہمالیہ جیسے بلند کردار والی شخصیات اور شرافت ایسی کہ سبحان اللہ ‘اب شطرنج کے بساط تو بچھتی ہے مگر وہاں عزیزمظہرصاحب نہیں ہوتے ‘لیاقت قریشی اور ندیم چشتی مرحوم کی نوک جھونک ‘راشد بٹ مرحوم اور عامرعلی عاصم کی شرارتیں ‘میاں خوشنود اور قادری تم اب کیوں نہیں لڑتے یار ؟قادری نے اپنے کیمرے کی فلیش لائٹ کو ٹریگرکیا اور میاں خوشنودکے چہرے کے سامنے لاکرکلک کردیا میاں صاحب نے پہلے تو قادری کو خوب پیٹاپھر آنکھ پر ہاتھ رکھ لیا خالدچوہدری نے ہمدری جتاتے کہا میاں شکرکرو آنکھ بائیں تھی ورنہ تم تو کام سے گئے تھے تو سادہ لوح میاں خوشنود نے فوری اپنا ہاتھ دائیں آنکھ سے ہٹا کر بائیں پر رکھا اور لگا قادری کو صلواتیں سنانے‘خالدچوہدری اب بوڑھا لگنے لگا ہے میری طرح‘زاہدچوہدری کو بھی پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے گزشتہ ہفتے پریس کلب کے الیکشن پرملاقات ہوئی تو پہچان نہیں سکا بڈھا ہوگیا ہے چوہدری تو بھی یار‘عامرعلی عاصم کو پتہ نہیں کیا سوجھی سویڈن میں جابیٹھا ہے عامر علی عاصم کے پاس ایک عجیب الخلقت چیزہوا کرتی تھی جسے اس نے موٹرسائیکل کا نام دے رکھا تھا اس کی ٹوٹی ہوئی بیک لائٹ کو راشد بٹ نے مزید توڑدیا تو عامرعلی عاصم چھپکے سے باہر گیا پریس کلب کے کونے موجود پیٹرول پمپ کی ٹائرشاپ سے پانا لایا اور راشد بٹ کی موٹرسائیکل کا اگلا پہیہ کھول کر کیریئرمیں لٹکا دیا ‘بٹ سے کہا تھا یار تم میرے پاس آجایا کرو صحافت ایک بے رحم شعبہ ہے آپ نوکری پر ہیں تو ہر کوئی آپ کا دوست اور جب بیروزگار ہوتے ہیں تو لوگ فون سننا بھی گورا نہیں کرتے ‘دوست احباب تک ایسے بھولتے ہیں کہ جیسے آپ کا وجود تھا ہی نہیں جیتے جی مرنے کا تجربہ کرنا ہو تو صحافت کے بیروزگاری کاٹ کر دیکھو‘بیماری نے تو اسے مارا ہی مگر ہم سب کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ اپنوں کی لاتعلقی نے اسے وقت سے پہلے ماردیا لاہور پریس کلب کی جیسے رونق چھن گئی ‘جب بھی کلب جاتا ہوں تو اس بنچ کو لازمی دیکھتا ہوں جہاں راشد بٹ بیٹھا کرتا تھا کہ شاید....‘رومان احسان ‘چھیمی شاہ (مرحومین)رومان احسان اور بندہ ناچیزنے مشرف دور میں پولیس کا تشددسہا ‘چھیمی شاہ کے لیے تو جنرل خالدمقبول کے ساتھ ڈیوٹی جیسے سز اتھی کہ جنرل صاحب صبح سات بجے صحافیوں کی ٹیم کے ساتھ نکلتے اور کئی بار رات ہوجاتی واپسی پر کہ ایک ہی دن میں کئی پروگرام ہوتے تھے پھر جنرل صاحب فوجی آدمی تھے نہ خود کچھ کھاتے پیتے تھے نہ کھانے دیتے تھے پھراخترحیات مرحوم ایک دن جنرل صاحب کے ساتھ سیدھے ہوگئے کہ جنرل صاحب ”سانوں کیوں بھکا ماردے او“مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے کہ جنرل خالدمقبول نے دوتین شہروں کا دورہ رکھا ہوا تھا رات کو ہی اطلاع آگئی کہ صبح چھ بجے گورنرہاؤس پہنچ جائیں ‘آرمی کا پرانا سا ہیلی کاپٹرتھا جس آوازاس کی رفتار سے کئی گنا زیادہ تھی تو اخترحیات صاحب نے بات چیت کا طریقہ اختیار کیا کہ وہ چٹ پر کوئی لطیفہ لکھتے اورساتھ بیٹھے قاضی ندیم کو پکڑادیتے اور قاضی ندیم ہیلی کاپٹرمیں موجود سارے صحافیوں کو پڑھتا حسب توفیق اس پر رائے زنی پر تحریری کی جاتی مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ کس نے جواب میں ایک انتہائی واہیات لطیفہ لکھ دیا تو ایک دوست نے وہ چٹ اس وقت کے ڈی جی پی آر خواجہ اطہرجمیل کو پکڑا دی انہوں نے پڑھے بغیراسے گورنر صاحب کے اے ڈی سی کو تھمادیا نوجوان کپتان سمجھا کہ شاید خواجہ صاحب نے کوئی پغام گورنر صاحب کے لیے لکھا ہے سو اس نے جنرل صاحب کو چٹ دیدی ‘خواجہ صاحب کی حالت دیدنی تھی کہ مارے گئے ‘جنرل صاحب نے چٹ پڑھی تو ان کے ہونٹوں پر آنے والی مسکراہٹ سے خواجہ صاحب کی جان میں جان آئی‘ایک ڈیرہ نواب صاحب کا ہوا کرتا تھا پاکستان کا بااثرترین سیاست دان مگر دوتین کمروں کے ایک مکان میں نکلسن روڈپر زندگی کی کئی بہاریں گزاردیں نوابزادہ نصراللہ خان صاحب مرحوم کے پاس شام کو حاضری ہوتی تھی کہ دو تین خبریں معمولی بات تھی ”انہوں نے کہا“والی صحافت اتنی عام نہیں تھی صحافی کو خبرنکالنا پڑتی تھی ”انہوں نے کہا“سے گزارانہیں ہوتا تھا ‘نواب صاحب کے ڈیرے کے دروازے سب کے لیے کھلے رہتے تھے‘ بزرگوار اپنے معمولات کے بڑے پکے تھے ہرکام وقت پر ‘ اے آرڈی کا زمانہ تھاجب دونوں نام نہاد بڑی ”جمہوری“جماعتوں کے قائدین دوبئی اور جدہ کے محلات میں عیش وعشرت کے زندگی گزاررہے تھے تو نوابزادہ نصراللہ خان ضعیف العمری میں بھی مشرف کی آمریت کے خلاف سٹرکوں پر تھے‘نواب صاحب کا ہی کام تھا کہ انہوں نے چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو بھی مسلم لیگ(ن)اور پیپلزپارٹی جیسی بڑی جماعتوں کے برابربیٹھایا ورنہ کہاں ”شودر“اور کہاں ”براہمن“ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کا کریڈٹ ہے کہ ان کی جدوجہد نے مشرف کے اقتدارکو اتنا کمزورکردیا کہ وہ ”پچاس سال وردی میں“نہ گزارسکا ورنہ پیپلزپارٹی تو ڈیل کرکے امین فہیم صاحب کو وزیراعظم بنوانے جارہی تھی کہ انہیں یقین ہوچلا تھا کہ مشرف اب بیس تیس سال جانے والا نہیں‘مگراب ”بہن اور بھائی“دونوں کی جماعتیں اپنے محسن کو بھلاچکی ہیں نون لیگ کو تو اتنی توفیق نہیں ہوئی پنجاب میں حکومت ہوتے ہوئے بھی انتا نہ کرسکی کہ نکلسن روڈکے اس مکان کو خرید کروہاں نواب صاحب کے نام کا ایک میوزیم بنادیا جاتا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی اہم ترین تحریکوں کا مرکزتھا یہ مکان مگر آج وہاں پرانے جوتے بکتے ہیں ‘بات کہیں سے کہیں نکل گئی نواب صاحب جو چاہتے حاصل کرسکتے تھے مگر انہوں نے نکلسن روڈ کے اس کرایہ کے مکان کو نہیں چھوڑا وہ ان کا آفس بھی تھا اور رہائش بھی ‘یاداشت غضب کی تھی اور مطالعہ بہت وسیع تھا شاعری سے بھی شغف تھا مگر صرف شوق کی حد تک وہ حقیقت میں نواب تھے مہمان نوازی اور وضعداری ان کے بعد اگر کسی میں دیکھی تو وہ قاضی حسین احمد مرحوم تھے قاضی صاحب سے آپ کو لاکھ اختلاف ہوسکتا ہے مگر ان کے ذاتی کردار پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا عشق رسولﷺ میں ڈوبے اس شخص کے ساتھ واجپائی کے دورہ لاہور کے موقع پر گیارہ فروری انیس سو نناوے میں ہم کچھ صحافی دوست بھی جماعت اسلامی لاہور کے دفترمیں محصور کیئے گئے تھے آنسو گیس کے شیل بارش کی طرح برس رہے تھے قاضی صاحب بہوش ہوگئے تو انہیں پچھلے کمرے میں منتقل کردیا گیا کہ وہاں آنسو گیس کے اثرات قدرے کم تھے مگر ہوش میں آنے کے بعد پھر کارکنوں کے ساتھ لٹن روڈ دفتر کے احاطے میں آن کھڑے ہوئے میرے محسن اور انتہائی شفیق بزرگ دوست صفدرچوہدری صاحب نے ایک دن بتایا کہ قاضی صاحب کی طبعیت اس واقع کے بعد خراب رہنے لگی تھی زہریلی گیس نے ان پر برے اثرات چھوڑے تھے ‘اب منصورہ بھی سونا سونا لگتا ہے کہ وہ لوگ ہی نہیں رہے ‘مولانا شاہ احمد نورانی کی محبت وشفقت برادرم رشید رضوی صاحب سے ایک دن نورانی صاحب کے مکتوبات کا تذکرہ کیا تو جھٹ سے بولے مجھے دیدو میں نے کہا حضرت وہ مولانا نے میرے نام لکھے تھے سو میں تو دینے والا نہیں آپ جنت میں جاکر اپنے نام لکھوالینا ان سے ‘ڈاکٹرسرفرازنعیمی صاحب کی دل پذیرمسکان ڈاکٹر صاحب انتہائی شفیق انسان تھے اتنے بڑے جامعہ کو چلانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ایک بار فرمانے لگے تمہیں پتہ ہے میں کھانا اس وقت کھاتا ہوں جب تمام طالب علم کھانا ختم کرلیتے ہیں ‘سارا دن اپنی پرانی سی موٹرسائیکل پر لاہور میں گھومتے رہتے تھے جب میں کہتا کہ ڈاکٹرصاحب چھوٹی چھوٹی مساجداور مدارس کے مولویوں کے پاس گاڑیاں آگئی ہیں آپ کو اب جامعہ کے کاموں کے لیے گاڑی اور ڈرائیور کا بندوبست کرنا چاہیے تو انتہائی سنجیدگی سے فرمانے لگے انہوں نے اپنی قبر میں جانا ہے اور میں نے جامعہ کے طالب علموں کے مال پر میں ایسی عیاشیاں نہیں کرسکتا ‘ڈاکٹراسراراحمد صاحب دس بار سوال کرو جواب اسی شفقت سے ملے گا غصہ بھی ہوجاتے تھے صرف کتابوں اور آڈیو ویڈیو خطبات کی مدمیں کروڑوں کما سکتے تھے مگر سب کچھ تنظیم اسلامی کے لیے وقف کررکھا تھاجب بھی ملاقات کے لیے حاضرہوا کوئی نہ کوئی کتاب تھما دیتے تھے فرماتے اس قحط الرجال میں کتابوں کے رسیا ملتے کہاں ہیں اب ‘پروفیسرعطاالرحمان ثاقب کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی شایدبہت کم لوگ ان کے نام سے واقف ہونگے پروفیسرصاحب فہم القرآن کے نام سے ایک ادارہ چلاتے تھے فی سبیل اللہ قرآن پاک کی ترویج اور تعلیم ان کا مشن تھی اور دوہزاردومیں اپنے اسی مشن کے دوران شہادت کا درجہ پایا پروفیسرصاحب کی قرآن پاک کی تعلیم دینے کی کلاسوں کا آغاز فجر کے بعد ہوتا اور رات گئے تک جاری رہتا ظہراور عصرکے درمیان وقفہ آتا تھا صرف ‘آپ کا دفتر ‘فیکٹری یا ورکشاپ ہے اور آپ نے پروفیسرصاحب سے درخواست کردی ہے کہ جناب ملازمین کو قرآن پاک پڑھا دیا کریں تو اگلے دن کلاس کا آغازہوجاتا گاڑی کے پیٹرول تک کے پیسے لینے کے رودار نہیں تھے‘لاکھوں کی تعداد میں شاگرد تھے‘نمازہ جنازہ میں یونیورسٹی گراؤنڈ تقریبا بھرگئی تھی ملک بھر میں ہی نہیں دنیا بھرمیں ان کے شاگرد پھیلے ہوئے تھے ‘فیروزپورروڈپرایک دفتربنارکھا تھا تو جب ملاقات کا دل چاہتا حاضرہوجاتے ظہراورعصرکے درمیان ‘یادیں اتنی کہ لکھنے لگیں تو کئی دیوان بن جائیں مگر اختصار مجبوری ہے کہ کسی کے پاس پڑھنے کا وقت نہیں ایک اور مردقلندرکا تذکرہ رہ گیا مگر وہ پھر کبھی سہی ‘قاضی صاحب کے بارے میں یاد آیا کہ رومی‘سعدی‘اقبال توقاضی صاحب کا عشق تھے ہی آخری ایام میں ایک خوشگوار انکشاف ہوا کہ قاضی صاحب کو فیض اور جالب جیسے بائیں بازو کے شعراء کے کلام بھی ازبرہیں بلکہ اپنے آخری ایام میں تقاریرمیں فیض کے اشعار کا استعمال زیادہ کرنے لگے تھے اللہ مغفرت فرمائے اس مردقلندرکی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :