نصف صدی کا قصہ

بدھ 20 مئی 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 برس دو برس کی بات نہیں‘ یہ نصف صدی کا قصہ ہے‘ جی ہاں‘ باالکل نصف صدی‘ وقت کس تیزی سے گزرتا ہے چاچا بانا‘ یہ دو لفظ بول ہی پائے تھے کہ آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے‘ اور وقت انہیں ماضی کی یادوں کی آکاس بیل کے جکڑ کر1962 میں اسکول کے زمانے میں لے گیا‘ آنس پونچھتے ہوئے کہنے لگے‘ چوہدری یاور اور چوہدری یوسف‘ کو جرمنی گئے چالیس سال بیت گئے ہیں‘ کل ان کی کال آئی ‘ تو رفیع بھی یاد آگئے‘ برصغیر کا عظیم مسلمان گلوکار‘ اس کے گائے ہوئے گانے‘ آنے سے اس کے آئی بہار‘ بہارو پھول برساؤ کہ میرا محبوب آیا ہے‘ وہ جب یاد آئے‘ دھیرے دھیرے چل چندا‘ سب یاد آگئے‘ چوہدری یاور اور چوہدری یوسف کے ساتھ گزرے ہوئے بچپن کے لمحات‘ جوانی کی بیٹھک‘ دوستوں کی محفل‘ اف سب یاد آگیا‘ کیا وقت تھا‘ جب ہر کوئی بڑوں کی عزت کرتا تھا‘ چھوٹوں سے شفقت کی جاتی تھی‘ استاد کا احترام تھا‘ رمضان المبارک میں مسجد میں تراویح نماز اور بچپن کی شرارتیں‘ یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ موبائل فون نہیں تھے آج یہ سب کچھ ترقی نے چھین لیا ہے‘ گھر میں بیٹھے لوگ فون کے ذریعے اور فیس بک کے ساتھ دنیا بھر سے تو رابطے میں رہتے ہیں مگر ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے افراد سے ان کا کوئی رابطہ نہیں ہوتا‘ کانوں میں ہیڈ فون اور ہاتھوں میں فون‘ خود ہی ہنس رہے ہیں اور خود ہی باتیں کرتے چلے جارہے ہیں‘ روٹی پاس پڑی ہے مگر کھانے کی فرصت نہیں‘ چانا بانا اسلام آباد کے اہم نہائت متحرک شخصیت ہیں‘ محنت سے نام بنایا‘ ان کا گھر اسلام آباد میں ہے‘ فیصل آباد کو اب بھی لائل پور کہتے ہیں‘ وہی منشی محلہ یاد کرتے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)


 چوہدری یاور اور چوہدری یوسف بھی منشی محلے کے ہی ان کے بچپن کے دوست ہیں‘ ایک ہی اسکول میں پڑھے ہیں‘ کلاس فیلو بھی رہے ہیں‘ ان کی صبح شامیں اور دوپہر‘ سہہ پہر کے سب اوقات اکٹھے گزرے ہیں‘ چالیس ہو رہے ہیں کہ وہ روزگار کے لیے جرمنی گئے اور بس پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے‘ اس لاک ڈاؤن نے جہاں خامیاں بے نقاب کی ہیں وہیں اس کی خوبیاں بھی سامنے آئی ہیں‘ لوگوں کو گھروں میں رہنا پڑا تو بہت کچھ باتوں کا علم ہوگیا کہ گھر کیسے چلتے ہیں‘ کچن کے مسائل کیا ہیں‘ کس کمرے کے پردے خراب ہوچکے ہیں اور کون سی دیوار پینٹ چھوڑ گئی ہے‘ لاک ڈاؤن تک تو سب یاد تھا اب نرمی ہوئی ہے تو گھر سے باہت نکلتے ہی سب کچھ بھول جائے گا‘ لیکن چاچا بانا کچھ نہیں بھولا‘ جب بھی انہیں کسی پرانے دوست کی کال آتی ہے تو بے اختیار گنگتاتے ہیں بہارو پھول برساؤ کہ میرا محبوب آیا ہے
 ان سے جب بھی محفل ہوئی‘ ہر بار وہ بدلے ہوئے ملے ہیں‘ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ تنہائی کا شکار ہیں‘ لیکن جب انہیں بچپن کا دوست‘ جسے وہ ہمیشہ یار کہتے ہیں‘ جیسے وہ فیصل آباد کو ابھی تک لائل پور کہتے ہیں‘ ایسے خوش ہوجاتے ہیں کہ بس کچھ نہ پوچھیں‘ ایک بار کسی نے پوچھا کہ آپ کی صحت کا راز کیا ہے کہنے لگے‘ سارا دن باہر رہوں تو بھی کھانا گھر جاکر کھاتا ہوں‘ دکھنے میں بہت سادہ دکھائی دیتے ہیں‘ مگر کس قدر کام کے آدمی ہیں یہ کوئی وزارت اطلاعات و نشریات والوں سے پوچھے‘ ان کے ایسے ایسے کام کیے کہ جو کسی سے نہیں ہورہے تھے‘ ان کے پاس تو راز بھی بہت سے ہیں‘ وزارت اطلاعات و نشریات کا کوئی افسر ان کے ریڈار سے باہر نہیں ہے‘ لیکن کبھی کوئی ایسی معلومات افشاء نہیں کی‘ جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو‘ اکثر کہتے رہتے ہیں اور سوال کرتے رہتے ہیں کہ کبھی ہم نے سوچا کہ دین اسلام میں تعلیم و تربیت، شعور آگاہی، اخلاقیات، معاشرت، معیشت، لین دین، حسن سلوک، حقوق العباد، والدین کے ساتھ سلوک، والدین کا بچوں کے ساتھ اور بچوں کا والدین کے ساتھ کیسا تعلق ہونا چاہیے، رشتہ داروں کے ساتھ بھرتاؤ، تجارت اور کاروبار کا طریقہ غمی خوشی جنگ امن نیز کہ ہر ایک صورتحال، یا پیش آنے والے احوال ہمیں اپنے دین کی روشنی اور تعلیم و تربیت سے ملتے ہی ہے اور ساتھ ساتھ اسکے برعکس چلنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے وہ بھی ہمیں اسی شریعت محمدی صلٰی اللہ علیہ وسلم میں ہی ملے گا۔

مگر پھر بھی یہ سب گناہ کرنے والے ہمارے معاشرے میں کھلم کھلا جنگلی جانوروں کی طرح گومتے پھرتے نظر آئیں گے۔۔۔یہاں رک کر اگر آپ ایک پل کیلئے سوچیں۔۔۔۔کہ اسلام نے جب سب کچھ بتا دیا، صحیح غلط، حرام حلال کا اور رب نے قرآن میں بھی فرمادیا
تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہی معاشرے میں سفید پوش افراد صرف غیرت اور بدنامی کے ڈر سے دوسروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے اکثر کہتے رہتے ہیں کہ ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جن کو اللہ نے ان کی استطاعت سے بڑھ کر دیا ہے لیکن وہ خرچ نہیں کرتے اور نجانے انسان یہ بات کیوں بھول جاتا ہے کہ اس دنیا سے صرف ایک کفن کے ٹکڑے کے علاوہ کچھ بھی نہیں لے کر جا سکتا موجودہ صورتحال میں اگر اپنے پڑوسی کاہی خیال رکھنا شروع کر دیں تو کوئی بھی بھوکا نہیں سوئے گا۔

لیکن افسوس حرص و لالچ نے اتنا اندھا کر دیاہے کہ دوسروں کی تکلیف کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ 
معاشرے کا ایک تلخ رخ یہ بھی ہے کہ اگر ہمارے پڑوس سے ایک لڑکی کی جینز شرٹ میں نکلتی ہے تو ہماری نظریں اس پر جمی ہوتی ہیں لیکن اگر اسی گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو تو ہم اندھے اور بہرے بن جاتے ہیں۔یاد رکھیں ہمسایوں کے فرائض کو بھول کر روز محشر اللہ کے حضور پیش بھی ہونا ہے۔

ملک اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتا جب تک عوام بہتری کے لئے کوشش نہ کرے۔۔لازمی نہیں ہے کہ ایک شخص بھوک سے مر رہا ہو تو اس کو خوراک مہیا کرنا حکومت کا فرض ہے!!!!! نہیں!!!! ہم بھی تو شہری ہیں یہ کام بھی کر سکتے ہیں۔۔
ابھی تو ہم پر صرف ایک وائرس کا حملہ ہوا تو ہم نے ماسک چھپا لیے۔خدا نہ کرے اگر قحط پڑ جائے تو اتنے لوگ بھوک سے نہیں مریں گے جتنا ان کو ان کی لالچ اور ہوس انہیں ماردے گی۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا!!!
غالب کے بہت شیدائی ہیں کہتے ہیں ان کی شاعری میں انسان اور کائنات کے مسائل کے ساتھ محبت اور زندگی سے وابستگی بھی بڑی شدت سے نظر آتی ہے، جس نے اردو شاعری کو بہت زیادہ وسیع کردیا ہے۔ ان کی شاعری، رومانیت، واقعیت، رندی، تصوف، شوخی و انکساری جیسی متضاد کیفیتوں کا حسین امتزاج ہے۔

ان کی شاعری میں جو رنج و الم ملتا ہے اور جس تنہائی، محرومی، ویرانی، ناامیدی کی جھلک ملتی ہے، وہ صرف ذاتی حالات کا عکس نہیں بلکہ اس میں اپنے عہد، سماج اور ماحول کی تصویر نظر آتی ہے پاکستان سے ان کی محبت بھی لاجواب ہے‘ کہتے ہیں کہ جیسا ملک دنیا بھر میں نہیں ہے اس کے حسین پہاڑی سلسلے اس کے میدان، دریا اور سمندر کے علاوہ اسکے صحرائی علاقے کسی کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، پاکستان کے لوگ محنتی اور اپنے وطن سے پیار کرنے والے لوگ ہیں، ہم اور ہماری حکومت اگر اجتماعی کوشش کریں تو ہم اپنے ایسے تمام علاقوں کومزید خوبصورت بنا سکتے ہیں ہمارا کلچر ہماری تہذیب ہماری اصل پہچان ہے، ہمیں اپنے کلچر کو فروغ دینا چاہئیے اور اس پر بہت خوش رہتے ہیں کہ ان کے جو بھی دوست‘ بیرون ملک گئے‘ انہوں نے اپنی الگ پہچان بنائی ہے اور پاکستان کا نام روشن کیا ہے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں سمندر پار پاکستانیوں کا بڑا اہم کردار ہے‘ چوہدری یاور اور چوہدری یوسف بھی انہیں میں سے ایک ہیں‘ انہیں ڈھیروں دعائیں اور بہت عید مبارک‘

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :