روشن صبح کا انتظار

پیر 14 ستمبر 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 تبدیلی کی بات کرنا اب کچھ عجیب سا لگتا ہے‘ تبدیلی تو اس کے لیے جس کا سب کچھ لٹ گیا‘ ایک کوہٹا کر دوسرے کو اقتدار دے دینا کوئی تبدیلی ہے؟ نہیں‘ ہر گز نہیں‘ ایک وقت تھا کہ مکہ کے لوگ برہنہ طواف کیا کرتے تھے‘ بچی پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دی جاتی تھی‘ ظلم کا دور تھا‘ طاقت ور کے لیے ہی زندگی کی آسائشیں تھیں‘ تجارت کے راستوں پر تلوار اور قبیلے کی طاقت کے زور پر قبضے کیے جاتے تھے‘ پھر ایک روز غار حرا نے انگڑائی لی‘ رہتی دنیا تک کی ایک بے مثال نہائت معتبر ہستی اٹھی اور اللہ کا پیغام لوگوں کے سامنے رکھا‘ یہ وہ ہستی تھی‘ جو یتیم پیدا ہوئی‘ دادا نے نام محمدﷺ رکھا‘ کہ جسے لوگ صادق اور امین کہتے تھے‘جس کے دیانت دار ہونے پرسب کے سب متفق تھے ایسی پاک باز ہستی کبھی کسی کا حق نہ کھایا‘ جو مال بیچا اس مال کے سارے عیب بھی بتائے اور گاہک کے سامنے کوئی عیب چھپا کر نہیں رکھا‘ اللہ نے اس عمل میں بے پناہ برکت رکھی‘ وہ مبارک ہستی اعلان کرنے کے لیے مکہ کے پہاڑ پر چڑھی اور اللہ کے پیغام کی جانب لوگوں کو بلایا اور کہا کہ تسلیم کرلو کہ اللہ کے سوائے کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں‘ اگر یہ تسلیم کرلو تو دنیا کی متاع اور ساریدولت تمہارے قدموں میں ہوگی‘ اس پیغام کو جس نے سمجھا اللہ نے اسے صدیق اکبر رضی اللہ تعالی بنادیا‘ جس بچے نے سمجھا اللہ نے اسے حیدر کرار رضی اللہ تعالی بنادیا‘ پھر زمانہ اور وقت آگے بڑھتارہا‘ اللہ کے نبیﷺ خاتم النبین کا قافلہ حق پیش قدمی کرتا رہا اور معاشرے میں تبدیلی آتی چلی گئی‘ کعبہ کے بت ٹوٹے‘ ہر یتیم کو اس کا حق ملا‘ سود معاف معاف ہوئے‘ تجارتی راستے پر امن بن گئے‘ خواتین کو عزت ملی‘ اور کسی میں ہمت نہیں تھی کہ کوئی کسی کی اراضی پر قبصہ کرے‘ کسی خاتون کی جانب چاہے وہ تنہاء ہی کیوں نہ ہو‘ بری نگاہ ڈالے‘ اور اعلان ہوگیا کہ اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جائے‘ کیونکہ پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ بااثر لوگوں کو ان کے جرم کے باوجود انہیں چھوڑ دیا کرتی تھیں‘ اس دور نے خواتین کو ایسی عزت دی کہ نبیﷺ خاتم النبین کی ازواج مطہرات تا قیامت امت کی مائیں کہلائیں گی‘ یہ ہے تبدیلی‘ تبدیلی کسی کے کاندھے پر بیٹھ کر اقتدار حاصل کرلینے اور نیب کو مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کا نام نہیں‘ تبدیلی بت توڑنے اور اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کا نام ہے‘ آج کے معاشرے میں ہمارے سامنے کتنے بت ہیں جو غریبوں کو کچل رہے اور امیروں کو سلام کرتے ہیں اور ان کی چوکھٹ پر دربان بنے کھڑے ہیں‘ سانحہ موٹرے ایک روز میں نہیں ہوا‘ یہ معاشرہ برسوں ایسے سانحات کی آبیاری کر تا چلا آرہا ہے‘ کس کس کا نام لکھا جائے‘ جو ایسے سانحات سے گزری ہیں‘ کس کس مجرم کا ذکر کیا جائے جو مجرم ہونے کے باوجود محض پولیس کی کمزور تفتیش کی وجہ سے شہادتیں نہ ملنے پر بری ہوئے ہوں‘ کوئی ایک واقعہ؟ نہیں جناب ایسے سینکڑوں اور ہزاروں واقعات ہیں‘ ان سے متعلق کتابیں لکھی جاسکتی ہیں‘ کرب ہے ایسے واقعات پر‘ ہاں جب حکومت وقت چاہے کہ کوئی واقعہ استعمال کیا جانا ضروری ہے تو پھر حکومت عالمی برادری سے فنڈزلینے کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام کے نام پر کھڑی ہوجاتی ہے‘ پھر سول سوئٹی کو استعمال کیا جاتا ہے‘ حکومت سمجھتی ہے کہ آئی جی تبدیل کردیا جائے تو تبدیلی آجائے گی‘ نہیں جناب‘ اس کے لیے رویہ بدلنا ہوگا‘ قانون نافذ کرنا ہوگا‘ لاہور میں ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین سے پوچھنا ہوگا کہ وہ ٹاؤن شپ میں کس کس پلاٹ پر قبضہ کرنے میں ملوث ہیں‘ جس طرح سی سی پی او نے کہا کہ خاتون خود ذمہ دار ہے‘ باالکل اسی طرح لاہور میں قبضہ مافیا کہتا ہے کہ جس کے پلاٹ پر قبضہ ہوا ہو‘ اور جعلی اسٹامپ پیپر پر قبضہ مافیا کوعدالت سے حکم امتناعی بھی مل گیا ہوتو وہ مالک خود اپنے پلاٹ پر قبضہ ہوجانے کا ذمہ دار ہے‘ جناب وزیر اعظم‘ لاہور کے ایک ایک محلے کا جائزہ لیں کہ وہاں کون کون قبضہ مافیا کس کس وزیر کی سرپرستی میں کام کر رہا ہے یہ سب کچھ ایسے معاشروں میں ہوتا ہے جہاں اہل اقتدار خود قبضہ مافیا ہوں اور جرائم کی سرپرستی کرتے ہوں‘موٹروے پرخاتون کے ساتھ زیادتی کا واقعہ شرمناک ہے اس سے بھی ذیادہ شرم ناک وہ رویہ ہے جس کا اظہار سی سی پی او نے کیا‘ نااہل‘ کرپٹ‘ قبضہ مافیا اور مجرموں کے گینگ کے سرپرست ہی ایسی بات کر سکتے ہیں یہ بھی کہا گیا کہ وہ پاکستان کو فرانس سمجھ کر نکلی ہوگی اِس بیان کے بعد لوگوں میں یہ تاثر جنم لینے لگاہے کہ جب عوام نے اپنی حفاظت خودہی کرنی ہے تو پھر عوام کے خون پسینے کی کمائی پر پلنے والا محکمہ پولیس کیوں؟ سی سی پی او نہیں جانتے کہ اسلام میں خواتین کی عزت وناموس کے تحفظ کے لیے اپنی جان تک قربان کر دینے کا حکم ہے۔

(جاری ہے)

اگر اُنہیں علم ہوتا تو کبھی فرانس کا حوالہ نہ دیتے۔ جتنا تحفظ اسلام نے عورت کو دیاہے، اُتنا ادیانِ عالم یا کسی معاشرے نے نہیں دیا‘اگر چودہ سو سال پہلے زیورات سے لدی اکیلی عورت مکّہ سے مدینہ تک بغیر کسی خوف کے سفر کر سکتی تھی تو آج اکیلی عورت سڑک پر کیوں نہیں نکل سکتی؟ کیا انسانیت کا تقاضہ یہ نہیں تھا کہ پولیس عملداری کے جھگڑے میں پڑے بغیر فوری طور پر مدد کو پہنچتی لیکن جہاں تقرریاں سیاسی ہوں، وہاں ایسا تو ہونا ہی تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :