
انا للہ و انا علیہ راجعون
جمعہ 18 دسمبر 2020

میاں منیر احمد
(جاری ہے)
رب العالمین کی قدرت کاملہ کے آگے انسان مجبور و بے بس ہے اور پھر ماہ سال کی گردش کی گنتی شروع ہو جاتی ہے، یہ سال بہت بھاری ثابت ہوا ہے قبلہ سعود ساحر اس عارضی دنیا سے ابدی دنیا کی جانب رخ کرگئے، ان کے بعد ہم سب کو ڈاکٹر اعجاز احسن اور عبدالقادر حسن کا غم بھی سہنا پڑا، ارشد وحید چوہدری کا غم بھی ابھی ہلکا نہیں ہوا تھا کہ طارق محمود بھی ہم سے بچھڑ گئے، کرونا وباء جب سے آئی ہے، خیر کی خبر کم ہی مل رہی ہے، اب نہ وہ ’پررونق محافل ہیں اور نہ ہی دوست احباب کی ضیافتیں وظرافتیں‘، بس مہکتی یادوں سے اعزاء واقارب ان کے ساتھ ہم اپنے روابط و تعلقات کو یاد کر کے نذرانہ عقیدت ومحبت پیش کر رہے ہیں، طارق کچھ عرصہ سے علیل تھے، طبیعتء بگڑنے پر انہیں ہسپتال لایا گیا جہاں انہیں وینٹیلٹر پر لگا دیا گیا، یہ وینٹیلیٹرز کیا ہیں؟ جو یہاں تک پہنچا کم ہی واپس آیا، اس بات کی ضرور طبی تحقیق ہونی چاہیے کہ وینٹیلیٹز سے واپسی کیوں ممکن نہیں رہتی، اس سے زندہ آباد جہاں کی طرف واپسی کی کوئی شاہراہ کیوں نہیں ہے، یہ معاملہ انسانی فہم وفراست سے بالا تر ہے سانس اور سائنس کا یہ تعلق ضرور سمجھنا ہوگا ، خرابی کہاں ہے وینٹیلیٹرز میں یا طریقہ استعمال میں کہیں کوئی خرابی ہے؟ طارق بھائی کے ساتھ پہلی ملاقات2004 میں ہوئی، جب بھی ملتے ہمیشہ مسکراتے ہوئے ملتے، میڈیا کی صنعت ان دنوں ایک کڑے وقت، بحران اور امتحان سے گزر رہی ہے، اب یہاں پر رونق چہرے مرجھائے ہوئے ملتے ہیں، ہر شخص کی کہانی اس کے چہرے پر لکھی ہوئی مل جاتی ہے، اور صاف پڑھی جاسکتی ہے، ایک جانب بے روزگاری ہے دوسری جانب جہاں روزگار ہے وہاں عزت نفس مجروح ہورہی ہے، ایڈیٹر اور اس کا قلم کہیں کھو گیا ہے، سب کچھ مادیت کی نذر ہوچکا ہے، اب ایک ایسا وقت ہے کہ اخبارات پوسٹرز کی مانند چھپ رہے ہیں، صفح اول اور صفحہ آخر پر پورے پورے صفحے کے اشتہارات ہیں اور کارکنوں کے لیے تنخواہیں نہیں ہیں، پی ایف یو جے گھاس پھوس کی طرح اگ رہی ہیں، مگر کارکنوں کے لیے نہیں، یہ بحران اس بحران سے بڑا ہے جو میڈیا انڈسٹری میں مالکان کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، اور جو بحران حکومت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، اخبار نویسوں کی فلاح و بہبود اور ان کی مدد کا تصور بدل گیا ہے، تعزیت کے رنگ بدل گئے ہیں، جس نے فیس بک پر تعزیت کی وہی مخلص قرار پاتا ہے، رواج یہ بن گیا ہے جو مالک تنخواہ نہ دے اور مسلسل بغیر تنخواہ کے کام لے رہا ہوں وہی مالک واجبات مانگتے مانگتے دنیا سے رخصت ہوجانے والے کارکن کے جنازے کی پہلی صف میں کھڑا نظر آتا ہے…… یہی جبر ہے اور اس جبر کا حساب صرف اللہ ہی کے ہاں ہوگا، طارق محمود کی رحلت سے ہم اپنے دوست کی پرتاثیر آواز سے محروم ہوگئے ہیں… طارق جیسے ہمارے بہت سے دوست اور سعود ساحر جیسے مہربان ہستیاں منوں مٹی تلے مدفون ہوگئی ہیں اب بس تعزیت اور دعاء رہ گئی ہے، اللہ تعالی ان تمام مرحومین کی اپنی رحمت سے مغفرت فرمائے، ان سب کو نبی اکرم ﷺ ی شفاعت نصیب کرے، ان کے درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء کرے، آمین
یہاں ایک بات کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا، کہ ہمیں مل کر سوچنا ہوگا کہ کیا کوئی سبیل نکل سکتی ہے کہ میڈیا انڈسٹری بحران سے باہر نکل سکے؟ اور قومی سطح پر میڈیا کے سینئر افراد کہیں مل بیٹھ کر سر جوڑ کر سوچیں کہ ہم کیا تھے اور کہاں پہنچ گئے ہیں، یہ شعبہ روزگار دینے والا شعبہ تھا اب جس کی ملازمت بچی ہوئی وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور جس کی ملازمت ختم ہوگئی وہ حسرت بھری نگاہوں سے روزگار تلاش کر رہا ہے، جس دروازے پر بھی دستک دی جائے وہاں سے آسامیاں پر ہیں کی نہیں بلکہ کوئی ضرورت نہیں کی آواز آتی ہے، ہمیں اس صورت حال پر سنجیدہ ہونا پڑے گا کہ دیکھیں یہ شعبہ بچ بھی جائے اور روزگار بھی پیدا کرنے کے قابل ہوجائے… مالکان کا موقف ہے کہ حکومت قصور وار ہے، حکومت کا موقف ہے کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں، ہر اشاعتی ادارہ اپنے وسائل خود پیدا کرے، وسائل حکومت کے پاس ہیں یا نجی شعبے کے پاس، نجی شعبہ کہتا ہے کہ کاروبار نہیں ہے، مندی ہے، وہاں بھی ملازمین کی چھانٹیاں ہورہی ہیں، ہر سال ہزاروں طلبہ ڈگریاں لے کر تعلیمی اداروں سے نکل رہے ہیں انہیں کیا کھپنا ہے، ملک میں جگہ نہیں ہوگی تو یہ بیرون ملک جانا چاہیں گے، گویا انہیں پڑھانے کے لیے سرمایہ کاری پاکستان نے کی فائدہ دوسری قوم اٹھائے گی، ملکی پارلیمنٹ، پارلیمانی سیاسی جماعتیں، جلسے جلوسوں کی سیاست سے ہٹ کر کبھی اس سنجیدہ موضوع پر توجہ دیں کہ ملکی سرمایہ کیوں ضائع ہورہا ہے…… اپنے مرحومین کے لیے ایک بار پھر دعاء ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے،ان کی قبر کو اپنے نور سے منور فرمائے، ورثاء کو صبر جمیل اور اپنی خاص رحمتوں اور نعمتوں سے سرفراز فرمائے اور ان کے مقصد حیات کی تکمیل میں ہمیں بھی مقبول حصہ ڈالنے کی توفیق عطاء فرمائے، اللہ رحیم اور کریم ہے ضرور ہم سب کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا، آمین
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
میاں منیر احمد کے کالمز
-
محرم سے مجرم کیسے
بدھ 2 فروری 2022
-
تبدیلی
اتوار 23 جنوری 2022
-
صراط مستقیم
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
زندگی کو عزت دو
پیر 10 جنوری 2022
-
افغان قوم اور قاضی حسین احمد
بدھ 5 جنوری 2022
-
ملک کی سلامتی کیلئے فکرمندی کس کو ہے؟
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی
منگل 5 اکتوبر 2021
-
چوہدری ظہور الہی ایک عظیم سیاست دان
منگل 28 ستمبر 2021
میاں منیر احمد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.